بات چیت: نرجس ملک
ملبوسات: تسنیم صدف
آرایش: روز مین سیلون
عکاسی و اہتمام:ایس ایم ریاض
لے آئوٹ:نوید رشید
گلوکار، اداکار، گیت نگار،میوزک اینڈ فلم پروڈیوسر، یاسر اختر کا نام انٹرٹیمینٹ انڈسٹری کے لیے ہرگز نیا نہیں کہ پچھلی تین دہائیوں سے شوبز ہی اِن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔5 سال کی عُمر میں اپنے ماموں جاوید جبّار کی پروڈکشن میں بننے والی انگریزی فلم سے اِس جادونگری میں قدم رکھا اور تب سے آج تک کام یابی کا زینہ چڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ بےشمار سُپرہٹ گانوں کےخالق، گلوکار نے بطور اداکار بیسیوں ڈراموں میں مختلف النّوع کردار نبھائے، تو مُلک میں ٹرینڈ سیٹ پروڈکشنز کے آغاز کے ساتھ متعدّد میوزک ویڈیوز بھی لانچ کیں۔ کئی سُپراسٹارز کو انڈسٹری میں متعارف کروانے کا سہرا اِن کے سَر ہے، تو اَن گنت کام یاب ڈائریکشنز بھی کریڈٹ پر ہیں۔
بی بی سی میوزک کے لیے کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے، تو اِن دِنوں برطانیہ میں ٹی وی کے لیے فلموں کی ایک سیریز بھی شُوٹ کر رہے ہیں، جس کا مقصد دُنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج بحال کرنا ہے۔ (یاد رہے، اس سیریز کےتحت ایک فلم ’’آزاد‘‘ ریلیز ہو کےکام یابی کےجھنڈے گاڑ چکی ہے، تو جلد ہی ’’رنگ دو رنگی‘‘ کے نام سےایک اور شاہ کار بھی سامنے آنے والا ہے) میوزک انڈسٹری میں خدمات کے اعتراف میں واشنگٹن ڈی سی سے ’’وَن مین انڈسٹری ایوارڈ‘‘ حاصل کرچُکے ہیں۔ اور، اور، اور… زندگی میں ابھی اور بھی بہت کچھ کرنے کے ارادے، حوصلے، عزائم رکھتے ہیں۔ گزشتہ دِنوں نجی مصروفیات کے سلسلے میں پاکستان آئے، تو ہم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اُن کے مَن پسند ملبوسات اور ایکسیسریز کے ساتھ ایک خُوب صُورت وارڈروب شوٹ کا اہتمام کر ڈالا۔
یاسر اختر سے بات چیت ہوئی، تو اندازہ ہوا کہ اُن پر ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے‘‘ اور ’’درخت جتنا پھل دار ہوگا، اُتنا ہی جُھکا ہوا ہوگا‘‘جیسی ضرب الامثال کیسی صادق آتی ہیں۔ شگفتہ مزاج، نرم خُو، عاجزی وانکساری کا پیکر۔ اسٹارز والا کوئی نخرہ، نہ بلاوجہ کا رعب داب۔ نہایت سُکون سے شوٹ کروایا اور بہت صبروتحمّل سے روایتی سوالات کے جوابات بھی دئیے۔ یاسر اختر نے اپنی وارڈروب سے متعلق بتایا کہ ’’نیلا، جامنی، سفید اور سیاہ میرے مَن پسند رنگ ہیں اور کوشش کرتا ہوں کہ ان ہی رنگوں کے ہلکے، گہرے شیڈز پہنوں۔ شلوار قمیص ہو، کرتا پاجاما، کوئی کیژول ڈریس یا ٹو پیس، تھری پیس سُوٹس بھی، میری نگاہ ان ہی رنگوں پہ جاکے ٹھہرتی ہے۔ مَیں ان رنگوں کے ساتھ کمفرٹ ایبل بھی رہتا ہوں اور یہ مجھے خود پر جچتے ہوئے بھی لگتے ہیں۔ ایکسیسریز میں مجھے بریسلیٹ، نیک چین، رِنگ اور گھڑی پہننا پسند ہے اور یہ آج سے نہیں، ایک عرصے سے ہے کہ میری پسند بہت جلدی جلدی نہیں بدلتی۔ مَیں ایک انداز کو کافی عرصے تک اپنائے رکھتا ہوں۔‘‘
تقریبات کے لیے پسندیدہ اسٹائل کے حوالے سے یاسر کا کہنا ہے کہ’’ہر تقریب کے ماحول، ڈریس کوڈ، موڈ کی مناسبت سے لباس کا انتخاب کرتا ہوں۔ شیروانی سے لے کر تھری پیس، کیژول سے لے کر بہت فارمل تک کسی بھی رنگ وانداز کو اپنانے میں قطعاً کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ یوں بھی بندہ فِٹ، اسمارٹ ہو، تو کوئی بھی لباس پہنا ہوا بُرا نہیں لگتا۔ اس لیے مَیں ملبوسات سے زیادہ اپنی فٹنیس پر توجّہ دیتا ہوں۔
ہاں البتہ گھر میں میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جن کپڑوں، جوتوں میں زیادہ آرام اور سُکون محسوس کروں، وہی پہنوں۔ اور ہاں، مَیں بہت زیادہ برانڈ کانشس بھی نہیں۔ کہیں بہت ضروری ہو تو برانڈڈ ملبوسات، جوتے بھی پہن لیتا ہوں، وگرنہ ہمیشہ میری پہلی ترجیح پوشاک کا آنکھوں اور دِل کو بھلا لگنا ہی ٹھہرتی ہے۔‘‘
ہئیراسٹائل بدلنے اورسیلون جانے سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’سیلون تو ہر20،25 دِن بعد جاتا ہوں، لیکن ہئیر اسٹائل بار بار نہیں بدلتا بلکہ دیکھا جائے تو شاید بچپن سے میرا ایک ہی ہئیر اسٹائل ہے۔ ویسے بھی میرا ماننا ہے کہ ’’بالوں میں جان ہے، تو شوبز کا جہان ہے‘‘ تو مَیں اپنے بالوں کی صحت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتا۔ یوں بھی انسان کی شخصیت میں بالوں کا کردار بےحد اہم ہوتا ہے اور مجھے بھی اپنےبالوں سے بہت پیار ہے، اس لیے مَیں اُنہیں تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھاتا‘‘۔ ’’اسمارٹ رہنے کے لیے کیا کرتے ہیں، خود اپنی شخصیت میں کیا چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘ ان سوالات کے جواب میں گویا ہوئے، ’’میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ مَیں اپنا ہرکام خود کروں۔جس قدرممکن ہو،متحرک رہوں۔ ایکسرسائز بھی کرتا ہوں، لیکن فٹنیس کا اصل راز ایکٹیو رہنا ہے۔
مَیں سُست بالکل نہیں ہوں۔ نیند پوری کرتا ہوں، پانی بہت پیتا ہوں۔ کھانا صاف ستھرا اور سادہ کھاتا ہوں۔ صفائی کا بےحد اہتمام رکھتا ہوں اور سب سے بڑھ کر خوش رہتا ہوں۔ نیک نیّت ہوں، اللہ نے جس قدر نوازا ہے، اُس کا بہت شُکر ادا کرتا ہوں۔ کبھی امیر، غریب کی تفریق نہیں کی۔ ہر ایک سے محبّت وخلوص سے ملتا ہوں۔ ویسے تو اللہ نے جیسا تخلیق کیا ہے، بہتر ین ہی کیا ہے، لیکن اپنے ظاہر وباطن کی بات کروں تو پورے وجود میں آنکھیں زیادہ اچھی لگتی ہیں اور باطنی طور پر اپنا صاف نیّت، خوش خلق ہونا پسند ہے۔ مجھے اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے، تو مَیں اُس کے بندوں سے بدسلوکی یا بداخلاقی کر کے ناشُکری نہیں کرتا۔‘‘
ملبوسات کی وسیع کلیکشن میں سے کچھ ری جیکٹ کرناہو، تو کیا کرتے ہیں اور شاپنگ کہاں سے کرنا پسند کرتے ہیں؟ ان سوالات کا یاسر نے کچھ یوں جواب دیا، ’’ضروری نہیں کہ جب کوئی لباس بہت پُرانا ہوجائے تو ہی مَیں اُسے کسی کو دوں۔ مَیں الحمدللہ، ویسے بھی چیریٹی کرنا پسند کرتا ہوں۔ کسی کو میری کوئی چیز پسند آجائے، تو تحفتاً بھی دے دیتا ہوں اور پھر اللہ نے مجھے اتنی استطاعت دی ہے کہ مَیں کسی کے کام آسکتا ہوں۔ مجھے لینے والا نہیں، دینے والا ہاتھ عطا کیا ہے، تو مَیں فخروغرور سے نہیں، بڑی عاجزی وانکساری کےساتھ دوسروں کےکام آکردِلی خوشی محسوس کرتا ہوں۔ شاپنگ کا یہ ہے کہ جس مُلک میں بھی ہوں، وہاں سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدتا ہوں، مگر پاکستان سے شاپنگ کرنا مجھے بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ سب سے زیادہ ذوق وشوق سے اپنے مُلک ہی سے خریداری کرتا ہوں۔ یوں بھی شلوار قمیص کی جو کلیکشن پاکستان میں دست یاب ہے، پوری دُنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ مجھے بلاوجہ کا شو آف بالکل پسند نہیں۔
دُنیا کے کسی بھی کونے میں رہوں، کوئی بھی کام کروں، کتنی ہی کام یابیاں کیوں نہ سمیٹ لوں، مَیں اپنے اصل، اپنی رُوٹس سے الگ نہیں ہوسکتا۔ مَیں کل بھی پاکستانی تھا، آج بھی پاکستانی ہوں اور مَرتے دَم تک پاکستانی رہنا چاہتا ہوں۔ میرا وطن، میری شناخت ہے۔ مَیں جتنا اپنے کام کے معاملے میں ایمان دار ہوں، اُتنا ہی مُلک سےبھی وفادار ہوں۔ مَیں نے جتنی کم عُمری میں شہرت کی بُلندیوں کو چُھوا، پھر اَن گنت لوگوں کے لیے راہیں ہم وار کیں، محنتی، ایمان دار ، ٹیلنٹڈ لوگوں کو سپورٹ کر پایا، تو یہ مجھ پر اللہ کا کچھ خاص کرم اور میرے مُلک کی بدولت ہی ہے، وگرنہ مَیں کیا اور میری بساط کیا۔ اِسی لیے مَیں ہمیشہ اپنے آپ کو ایک سچّا پاکستانی کہلوانے میں بے حد فخر محسوس کرتا ہوں۔‘‘
اپنی وارڈروب کے سب سے پُرانے اور پسندیدہ لباس، نیز دیگر لوازمات سے متعلق یاسر نے بتایا کہ ’’ایک ٹکسیڈو(TUXEDO)اور ایک سیاہ رنگ کا تھری پیس سُوٹ اتنا پسند ہے کہ بہت پُرانا ہوجانے کے باوجود سنبھال رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً پہنتا بھی ہوں۔ اس کے علاوہ پرفیوم، گھڑیاں اور چشمے ہمیشہ اچھی کوالٹی کے خریدتا ہوں اور اِن کے معاملے میں کبھی قیمت نہیں دیکھتا۔ کوئی چیز آنکھوں کو، دِل کو اچھی لگ جائے تو محض قیمت کے سبب دِل نہیں مارتا کہ جس کام سے خوشی ملتی ہو، وہ کرلینا چاہیے۔ حد درجہ کفایت شعاری کے حق میں ہوں، نہ ہی فضول خرچی کے۔ بس اعتدال کے رستے پر گام زن ہوں اور اِسی پر رہنا چاہتا ہوں‘‘۔
ہمارا یاسر سے آخری سوال تھا کہ ’’آئینہ دیکھ کر کیا خیال آتاہے، ہونٹوں سے پہلا لفظ کیا ادا ہوتا ہے اور کیا ایک سیلبریٹی ہونے کا احساس ہمہ وقت گھیرے میں لیے رہتا ہے؟ ‘‘جواباً یاسر نے سَرجُھکا کے بہت ہی دھیمی آواز میں کہا، ’’آئینہ دیکھ کرمنہ سے صرف اور صرف ’’الحمدللہ‘‘ نکلتا ہے۔ مَیں ایک عام ساانسان ہوں۔ مجھ میں اگر کچھ خاص ہے، تو وہ میرے رب کا مجھ پر بےانتہا کرم اور مہربانی ہے۔
مَیں اگر کوئی سلیبریٹی ہوں بھی، تویہ مالک کا احسان ہے۔ وہ جسے چاہے عزّت دے اور جسے چاہے ذلّت۔ انسان کا خود پہ بھلا کیا اختیار اور دوسری بات یہ کہ میرے دِل سے کبھی ایک پَل کے لیے یہ احساس جُدا نہیں ہوتا کہ مَیں جو بھی کچھ ہوں، پاکستان کی بدولت ہوں، تو مجھے خود کو ایک سلیبریٹی کہلوانے سے زیادہ ایک سچّا پاکستانی کہلوا کر کہیں زیادہ خوشی ملتی ہے۔‘‘