• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جہانگیر ترین فعال ہوتے تو اپوزیشن کے بعض اراکین کے استعفے روک سکتے تھے؟

پی ڈی ایم کی تحریک اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے ، اب جنوبی پنجاب میں24 دسمبر کو بہاولپور میں ایک بڑی ریلی نکالنے کے لیے تیاریاں جاری ہیں ، ملتان میں بھی اس ریلی میں شرکت کے لیے پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے کارکن جوش و جذبے کے ساتھ تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اس ریلی میں پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت بھی شریک ہو گی،جس میں مریم نواز بھی شامل ہیں ، یہ پی ڈی ایم کا جنوبی پنجاب میں ملتان کے بعد دوسرا بڑا سیاسی شو ہوگا ،بہاولپور ڈویژن ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں ریاستی صوبہ بحالی کی تحریک بھی چلتی رہی ہے اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی کئی بار یہ وعدہ کیا کہ بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا ،بلکہ ن لیگ نے تو یہ قرارداد پیش کر دی تھی کہ جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ 

اب اس شہر میں ایک بڑا سیاسی شو ہونے جا رہا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک زوروں پر ہے اور 31دسمبر تک پارٹی کی قیادت کے پاس اس استعفے جمع کرانے کی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے ، یہی لگتا ہے کہ یہ مختلف شہروں میں ریلیوں کا سلسلہ پی ڈی ایم کی اس تحریک میں مزیدشدت لائے گا اور 31 جنوری تک پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جو لانگ مارچ کا ماحول بنانا چاہتی ہے، وہ مختلف شہروں میں ان ریلیوں کی وجہ سے زور پکڑتا جائے گا ،تحریک انصاف میں میں ایسی کوئی موثر آواز نہیں ہے کہ جو جنوبی پنجاب میں ان ریلیوں اور جلسوں کا کوئی توڑ کر سکے ،امکان یہی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت بہاولپور کے بعد ڈیرہ غازی خان کا رخ بھی کرے گی کیونکہ کہ وہ جنوبی پنجاب کا تیسرا بڑا ڈویژن ہے اور رقبہ کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا ہے ۔ 

جہاں تک ملتان کا تعلق ہے تو یہاں کی سیاست پی ڈی ایم کے اس جلسہ کے بعد خاصی متحرک نظر آتی ہے ،مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے کارکن جو ملتان جلسہ سے پہلے بددلی کا شکار تھے، اب ان میں ایک نئی امید نظر آرہی ہے، جہاں تک جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اراکین اسمبلی کا تعلق ہے تو انہوں نے مجموعی طور پر قیادت کو استعفے دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے صوبائی نشست سے اپنا استعفیٰ سرائیکی زبان میں لکھا ہے اور یہ شاید اپنی نوعیت کا پہلا استعفیٰ ہے جو سرائیکی زبان میں لکھا گیا ہےتوقع یہی ہے کہ جنوبی پنجاب کے اپوزیشن کے تمام ارکان اسمبلی 31دسمبر تک اپنی قیادت کے پاس استعفے جمع کرا دیں گے، اب تک کوئی ایسا منحرف رکن سامنے نہیں آیا ،جس نے قیادت کے فیصلے سے ہٹ کر استعفی نہ دینے کا اعلان کیا ہو ، جبکہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے حوالے سے یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کے متعدد ارکان اسمبلی سے رابطے میں ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مستعفی نہ ہو ں۔

تاہم ابھی تک کوئی ایسی مصدقہ اطلاع نہیں آئی کہ ان کی وجہ سے پیپلز پارٹی یا ن لیگ کا کوئی رکن بغاوت پر آمادہ ہوا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے حلقوں میں میں یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ اگر اس موقع پر جہانگیر ترین فعال ہوتے اور پارٹی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات میں رخنہ نہ آتا، تو وہ اپوزیشن کے بہت سے ارکان کو کو استعفوں سے روک سکتے تھے ، کیونکہ ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں، حکومت سازی کے وقت بھی انہوں نے ایسا کردار ادا کیا تھا اور قومی اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود وہ تحریک انصاف کی حکومتیں بنوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 

اس بار صرف شاہ محمود قریشی میدان میں ،لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ارکان کو بھی خوش نہیں کر پا رہے،تو اپوزیشن کے ارکان کو توڑنا،ایک ناممکن سے بات نظر آتی ہے ، ویسے بھی جنوبی پنجاب خصوصاً ملتان میں پی ٹی آئی انتشار کا شکار ہے ،ارکان اسمبلی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ،گروپ بندی کی وجہ سے تحریک انصاف سیاسی حوالے سے اپنی قدر و قیمت کھوبیٹھی ہے ، اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے کہ سیاسی طور پر شاہ محمود قریشی کوئی کردار ادا کر سکیں۔ 

جہاں تک وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا تعلق ہے ہے تو سوائے ایک بڑا سیاسی عہدہ ہونے کی ان کے پاس کوئی ایسی سیاسی کشش نہیں ہے کہ جو اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو مستعفی ہونے سے روک سکے ، وہ بارگین پاور جو ہمیشہ جہانگیرترین کے ساتھ رہی ہے، وہ پی ٹی آئی کی سطح پر مفقود نظر آتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر اپوزیشن کا اس پورے خطہ میں کوئی مقابل نہیں ہے اور وہ بڑی آسانی سے اپنی تحریک کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔

ادھر ملتان کے رکن قومی اسمبلی ملک عامرڈوگر جو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ہیں ،کو وزیرمملکت کا درجہ دے دیا گیا ہے ، ملک عامر ڈوگر کے حامی اس بات پر پھولے نہیں سما رہے اور انہوں نے پورے شہر میں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملتان کے گیلانیوں، قریشیوں و ہاشمیوں کے بعد اب ڈوگروں کے پاس بھی وزارت آگئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک عامر ڈوگر کو صرف وزیرمملکت کا سٹیٹس دیا گیا ہے،انہوں نے نہ تو وزارت کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے نہ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ 

اگرچہ وہ وزیراعظم عمران خان کی نظر کرم میں رہے ہیں لیکن اس بار ان کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہے کہ انہیں وزیر مملکت کا صرف سٹیٹس دیا گیا، عہدہ نہیں ملا ،حالانکہ کہ سیاست میں ان کے متحرک کردار کی وجہ سے ملتان کے عوام کی یہ خواہش ہے کہ انہیں وفاقی وزیر بنایا جائے ،تاہم وزیرمملکت کا درجہ پانے کے بعد انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ملتان کے لوگوں کی محرومیوں کو دور کریں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین