• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میگا پراجیکٹس مکمل، وزارتوں میں اکھاڑ پچھاڑ، بی آر ٹی کرپشن پر حکمِ امتناع

سال 2020ء میں خیبر پختون خوا میںکورونا کی عالمی وَبا کے باوجود سیاسی ہلچل جاری رہی۔اپوزیشن جماعتوں نےپشاور میں بڑاجلسہ کرکے درجۂ حرارت گرم رکھا۔تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے اپنے دوسال مکمل کرکے تیسر ے سال کا آغاز کیا۔ تاہم، پارٹی کے اندر معمول کی رسّہ کشی جاری رہی ۔ماضی کی طرح اس مرتبہ پھر ماہِ دسمبر میں ایک بڑا حادثہ رُونما ہوا، جس میں پشاور کے خیبرٹیچنگ اسپتال میں اچانک آکسیجن ختم ہونے سے سات مریض دَم توڑ گئے،تواپوزیشن جماعتوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیرِاعلیٰ ہائوس کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا، جس میں واقعے پر شدید احتجاج کے ساتھ ساتھ حلقوں کے لیے فنڈز اور دیگر مسائل کا مطالبہ کیا گیا ۔ 

سالِ گزشتہ خیبرپختون خوا کے عوام کے لیے کئی حوالوں سے یادگار رہا ،جیسےتحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے تین میگا پراجیکٹس مکمل کیے، جن میں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ،سوات موٹر وے اور صوبے میں تمام شہریوں کے لیے مفت صحت کی سہولت کی فراہمی شامل ہیں۔گرچہ تمام شہریوں کے لیے صحت کی مفت سہولت کی فراہمی ایک فلاحی ریاست کا فرض ہے، لیکن بہر حال یہ ایک انقلابی قدم ہے، جس کے تحت صوبے کے عوام کو پورے مُلک میں سرکاری و نجی اسپتالوں میں شناختی کارڈ دکھانے پر علاج کی مفت سہولت کا بندوبست کیا گیا ۔

یعنی 31جنوری 2021ء تک خیبر پختون خوامُلک کا وہ پہلا صوبہ بن جائے گا،جس کے تمام شہریوں کے لیے مفت صحت کی سہولتیں میسّر ہوں گی اور وہ مُلک بھر کے 500سرکاری ونجی اسپتالوں سے مفت علاج کروا سکیں گے۔ ہیلتھ کارڈ کی انفرادیت یہ ہےکہ خیبر پختون خوا کا سے تعلق رکھنے والارجسٹرڈ شخص مُلک کے کسی بھی شہر سے مفت علاج کروا سکے گا۔تاہم ، اس کے ابتدائی مرحلے میں او پی ڈی اور جگر اور ہڈیوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کو پیکیج کا حصّہ نہیں بنایا گیا ۔ البتہ، جلدہی اس منہگے علاج کو بھی پیکیج کا حصّہ بنائے جانے کا امکان ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ پورے صوبے کے عوام کو مفت طبّی خدمات کی فراہمی پر صرف 18 ارب روپے لاگت آئے گی۔

2020ءکے دوران تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے 2سال10ماہ کے طویل انتظار کےبعدبالآخرپشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ کی تعمیر مکمل کی اوربسز کا پہیہ چل پڑا ۔ وزیر اعظم پاکستان، عمران خان نے 13اگست کو 70ارب روپے مالیت کے منصوبے کا باضابطہ افتتاح کرکے اسے عوام کے لیے کھول دیا، تاہم اگلے ہی دن ایک بس میں آ گ بھڑک اُٹھی ،جس کے بعد بی آر ٹی بسز میں آتش زدگی کے واقعات معمول بن گئے، نتیجتاً افتتاح کے ایک ماہ کے اندر ہی حکومت کو بی آر ٹی سروس بند کرنا پڑی۔ 

بعدازاں،چین سے 20رکنی ماہرین کی ٹیم نے پشاور آکر بسز میں آتش زدگی کےواقعات کی انکوائری کی اور اپنی رپورٹ میں بتایاکہ’’ بسزکے موٹر کیپیسٹر میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کے واقعات رُونما ہورہے ہیں۔‘‘ماہرین کی ٹیم نے بی آر ٹی بسز میں ضروری آلات اور پرزے تبدیل کیے، جس کے بعدبالآخر23اکتوبر کو بی آر ٹی بس سروس دوبارہ بحال ہوگئی۔ 

تاہم، بی آر ٹی منصوبے میں مبیّنہ کرپشن اور بےضابطگیوں کا معاملہ تادمِ تحریر تشنۂ تکمیل ہے، کیوں کہ صوبائی حکومت نے بے قاعدگیوں کی تحقیقات روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرلیا تھا۔ کورونا وائرس کے حملے کے پیش ِنظر خیبر پختون خوا اسمبلی کا اجلاس بھی خصوصی ایس او پیز کے تحت جاری رہا۔سال بھر کے دوران صوبائی اسمبلی کے مجموعی طور پر5سیشنز منعقد ہوئے ،جن میں4حکومت ،جب کہ ایک اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں کُل 29بلز، 44قراردادیں منظوری کی گئیں،جب کہ 28تحاریکِ استحقاق اور 76 تحاریکِ التوا نمٹائی گئیں۔ 

صوبائی حکومت نے وائرس کی وجہ سے صوبے میں بلدیاتی انتخابات دوسال کےلیے موخر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ،اس مقصد کےلیے صوبائی اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل2020ءکی بھی منظوری لی، اسی طرح اسمبلی نے صوبے میںرہائشی، کمرشل اور صنعتی جائیدادوں پر عائد پراپرٹی ٹیکس کی شرح2فی صد سے کم کرکے ڈیڑھ فی صد کرنے کے لیے’’ فنانس ترمیمی بِل2020ء، ‘‘صوبے میں گداگری اور بچّوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے کی روک تھام کے لیے’’ خیبر پختون خوا گداگری روک تھام بِل2020ء‘‘بھی پاس کیے ۔ صوبائی اسمبلی نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کو سزائے موت دینے اور سرکاری دستاویزات میں نبی پاک ﷺ کے نامِ مبارک کے ساتھ ’’خاتم النبیّن‘‘ لازمی لکھنے کی قراردادوں کی بھی منظوری دی۔

تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت بعض اندرونی مشکلات کا بھی شکار رہی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نےوزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان کے خلاف بغاوت اور صوبائی حکومت میں گروپ بندی کے الزام میں 26جنوری 2020ءکو سابق سینئر وزیر برائے سیاحت،عاطف خان ، وزیرِ صحت ،شہرام ترکئی اور صوبائی وزیرِ مال، شکیل خان کو کابینہ سے فارغ کردیا ،توتقریباً 7ماہ تک یہ عُہدے خالی رہے ۔

بعد ازاں ، وزیرِ اعلیٰ نے ان پر تقرّری کی بجائے وزیر خزانہ، تیمور جھگڑا اور معاونِ خصوصی ، کامران بنگش کو فارغ کیے گئےوزرا کے محکموں کا اضافی چارج دے دیا۔ اس دوران شہرام خان ترکئی کے والد ،سینیٹر لیاقت ترکئی اور چچا عثمان ترکئی کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کافی حد تک غلط فہمیوں کا خاتمہ کیا گیا اوربعدازاں گورنر خیبر پختون خوا ،شاہ فرمان کی مداخلت اورمصالحت کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور شہرام خان ترکئی کے مابین اختلافات کا خاتمہ ہوا، یوں شہرام ترکئی کی کابینہ میں واپسی کی راہ ہم وار ہوئی۔ 

جس کے بعد3ستمبر کو انہوں نےدوبارہ وزارت کا حلف لیا۔ تاہم،عاطف خان اور شکیل خان تا حال کابینہ سے باہر ہیں۔وزارت، محکموں کی تقسیم اور ردّوبدل کے معاملے پر بھی صوبائی حکومت کئی ہفتوں تک مشکلات سے دوچار رہی ۔ با لآخر صوبائی وزیر، اکبر ایوب سے ابتدائی و ثانوی تعلیم کا محکمہ لے کر شہرام ترکئی کو دے دیا گیا۔ وزیر انورزیب کو محکمۂ مال اور شوکت یوسف زئی سے اطلاعات کی وزارت لے کر انہیں محنت اور افرادی قوّت کا محکمہ دیا گیا۔

وزیرِ اعلیٰ کے معاونِ خصوصی ، کامران بنگش سے بلدیات کا قلم دان لے کر انہیں اعلیٰ تعلیم کے معاونِ خصوصی کی ذمّے داری دی گئی، جب کہ وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے پاس صحت کی وزارت بھی برقرار رہی۔ علاوہ ازیں،وزیراعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ،اجمل وزیر کی ایک خفیہ آڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ،جس میں وہ ایک اشتہاری ایجینسی کے مالک سےمبیّنہ طورپر کمیشن کے معاملات طے کررہے تھے، جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ ،محمود خان نے اجمل وزیر کوبرطرف کرکے ان کی وزارت کامران بنگش کو تفویض کردی۔

دوتہائی اکثریت کی حامل تحریک ِانصاف کی صوبائی حکومت ،عددی لحاظ سے کم زور، مگر تجربہ کار اپوزیشن کے ہاتھوں مشکلات میںگِھری رہی۔ اپوزیشن ارکان نے ترقیاتی فنڈز کی مبیّنہ غیر منصفانہ تقسیم ، چہیتوں کو نوازنے اور اپوزیشن ارکان کو نظرانداز کرنے کے خلاف شدید ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ،جس کے بعد اسپیکر، مشتاق غنی کی سربراہی میں حکومتی وزرا کے جرگے نے اپوزیشن لیڈر کی رہائش گاہ پر اپوزیشن پارلیمانی قائدین کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ تاہم، حکومتی یقین دَہانی پر احتجاج ختم کرنے کے باوجود کئی ماہ تک مطالبات حل نہ ہونے پر اپوزیشن ارکان نے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کےخلاف پشاور ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن دائر کر دی۔ 

اسی طرح صوبائی اسمبلی میں لڑائی اور ہاتھا پائی کے ناخوش گوار واقعات بھی رُونما ہوتے رہے۔ سال 2020ء کے دوران صوبہ خیبر پختون خوا آٹے اور گندم کے شدید بحران کی زَد میں رہا ، پنجاب سے آٹے کی ترسیل بند ہونے کے سبب خیبر پختون خوا میں آٹے کے20کلو تھیلے کی قیمت 900روپے سے1400روپے تک جا پہنچی۔ وزیرِ اعلیٰ، محمود خان نے محکمۂ خوراک کی جانب سے گندم ذخیرہ اور آٹے کی قیمتیں کنٹرول کرنے سے متعلق ناقص انتظامات پر صوبائی وزیرِ خوراک، حاجی قلندر لودھی کی وزارت تبدیل کرکے انہیں محکمہ ٔمال کاقلم دان سونپ دیا۔ 

بعد ازاں، صوبائی حکومت نے یوکرائن سے سوا لاکھ میٹرک ٹن گندم دَرآمد کی، تاہم آٹے کی قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مُلک بھر کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی چینی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوپوراسال پَر لگے رہے ۔ پشاور سمیت صوبے بھر میںمنہگائی، بے روزگاری اور کورونا کی پابندی سے متاثرہ عوام بدترین بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ کے عذاب میں بھی مبتلا رہے ۔ گرچہ نومبر کے آخر میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا نے بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے وفاق سے رابطہ کیا،لیکن پھر بھی صوبے کے عوام کواس عذاب سے نجات نہ مل سکی ۔

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 2018ءکے انتخابات سے چند ماہ قبل صوبے کے آئمہ مساجد اور خطیبوں کے لیے ماہانہ10ہزار روپے اعزازیہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ بھی تاحال عملی کارروائی کا منتظر اورصوبائی محکمۂ خزانہ میں اٹکا ہوا ہے۔سال2020ء خیبر پختون خوا کی عدلیہ کےلیے بھی بھاری ثابت ہوا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے باعث وفات پاگئے۔ وقار احمد سیٹھ مرحوم کو سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کوغدّاری کیس میں پھانسی کی سز اسنانے پر بین الاقوامی شہرت ملی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ 200سے زائد مبیّنہ عسکریت پسندوں کی ملٹری کورٹس کی سزائوں کو کالعدم قرار دینے پر بھی بین الاقوامی توجّہ کا مرکز بنے تھے۔

اسی طرح وقار احمد سیٹھ نےپہلی بار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تین جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیّناتی چیلنج کی اور موقف اختیار کیا کہ ’’یہ اُن کا حق ہے، کیوں کہ وہ چیف جسٹس ہیں۔‘‘ ان کی وفات پر جسٹس قیصر رشید کو قائم مقام چیف جسٹس ، پشاور ہائی کورٹ مقرر کیا گیا۔ علاوہ ازیں، آرمی پبلک اسکول تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ، جسٹس ابراہیم خان نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کروائی، جسے سپریم کورٹ نے پبلک کرنے کا حکم دیا۔

خیبر پختون خوا میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں دہشت گرد ی کے واقعات میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی۔دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش آیا، نہ پشاور میں بھتّہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ البتہ، ایک عرصے کے امن کے بعد 27 اکتوبر کو تھانہ آغا میرجانی شاہ کی حدود ،دیر کالونی میں سپین جماعت دارالعلوم زبیریہ میں اس وقت بم دھماکا ہوا، جب مدرسے میں مولانا مفتی رحیم حقانی درس دے رہے تھے،دھماکہ خیز مواد ایک نامعلوم شخص رکھ کرفرار ہو اتھا ۔

اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا نشانہ مولانا مفتی رحیم حقّانی تھے۔ تاہم، وہ محفوظ رہے۔ دھماکے کے نتیجے میں آٹھ بچّے شہید اور 150افراد زخمی ہوئے ۔خیبر پختون خوا میں بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں پچھلے دو سالوں کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔واضح رہے کہ 2019ءمیں185 بچّوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور2020ءکےصرف آٹھ ماہ کے دوران 184واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 182 مقدمات درج ہوئے ۔2019ء میں تین بچّوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، جب کہ 2020ء کے گیارہ ماہ میں چھے بچّوں اوربچیوں کوجنسی زیادتی کےبعد قتل کیا گیا۔اس حوالے سے کے پی پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔

خیبر پختون خوا حکومت نے بھارتی فلم نگری کے دو عظیم اداکار وںاور دوستوں یوسف خان عرف دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نےدلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کا سروے اور پیمائش کا مرحلہ مکمل کیا۔ڈپٹی کمشنر اور محکمۂ پٹوار کے اہل کاروںنے زمین کی قیمت کا تعیّن کیا، جب کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی طرف سے تعمیرات اور ملبے کی قیمت کا تعیّن ابھی باقی ہے۔ 

دونوں گھر ایک طویل عرصے سےمخدوش حالت میں خالی پڑے تھے اور محکمہ آثار ِقدیمہ نے انہیں خریدنے کے لیے پہلے ہی فنڈز مختص کر رکھے تھے۔ میوزیم میں دونوں اداکاروں کی سوانح عُمریاں، پشاور سے ان کی دیرینہ وابستگی کا احوال، فلموں کا ریکارڈ، تصاویر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا ڈیٹا جمع کرکے رکھاجائے گا۔

تازہ ترین