تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: عریشہ شاہ، زینیا اجر
ملبوسات: منوش برائیڈل کلیکشنز
آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر
عکّاسی: ایم کاشف
لے آئوٹ: نوید رشید
قتیل شفائی کی غزل ہے ؎ تتلیوں کا رنگ ہو یا جُھومتے بادل کا رنگ… ہم نے ہر اِک رنگ کو جانا تِرے آنچل کا رنگ … تیری آنکھوں کی چمک ہے یا ستاروں کی ضیاء … رات کا ہےگُھپ اندھیرا یا تِرے کاجل کا رنگ … دھڑکنوں کی تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے … جیسے گوری کے تھرکتے پائوں میں پائل کا رنگ … پھینکنا تم سوچ کر لفظوں کا یہ کڑوا گلال … پھیل جاتا ہے کبھی صدیوں پہ بھی اِک پَل کا رنگ … اب تو شبنم کا ہر اِک موتی ہے کنکر کی طرح … ہاں اِسی گلشن پہ چھایا تھا، کبھی مخمل کا رنگ … چار جانب جس کی رعنائی کے چرچے ہیں قتیل … جانے کب دیکھیں گے ہم اُس آنے والے کل کا رنگ۔
ماضی، حال خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، آنے والے کل سے ہمیشہ اچھی اُمید ہی رکھی جاتی ہے۔ حتٰی کہ انتہائی منفی سوچ کے حامل افراد کے ذہن کے بھی، کسی نہ کسی گوشے میں اُمید کی کوئی جوت جگمگاتی ہے، تو ہی وہ زندگی کی گاڑی کھینچے چلےجاتےہیں۔ اور رجائیت پسندوں نے تو سال 2020ء کے لیے بھی بڑی خوش بختی و خوش اُمیدی کا اظہار کیا تھا، تب ہی اس کے لیے’’کلاسک بلیو‘‘ رنگ کا انتخاب کیا گیا، مگر اب لوگ بڑے غیظ و غضب سے پوچھتے ہیں کہ ؎ کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے۔ ساری پیش گوئیاں غلط بھی ثابت ہوجائیں، پیش قدمیوں کے لیے، پیش بندیاں تو کرنی ہی پڑتی ہیں، تب ہی تو ہر سال کے آغاز پر "PANTONE" ،ورلڈ کلر اتھارٹی دنیا بھر کے ماہرین کی آراء اور مختلف سرویز کی بنیاد پر سالِ نو کے لیے کسی خاص الخاص رنگ کا انتخاب کرتی ہے۔ جیسا کہ سال 2021ء کے لیےخالص سُرمئی اور بہت روشن چمک دار، تیز پیلے رنگ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اِمسال ایک تو، ایک رنگ کے بجائے دو رنگوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
دوم، دونوں کا امتزاج اس قدر حسین معلوم ہورہا ہے کہ دیکھ کے ہی طبیعت کِھل اُٹھے۔ پھردونوں رنگ اپنے اپنے خواص، خاصیّتوں کے اعتبار سے انتہائی منفرد ہیں۔ اس ضمن میں پینٹون کا موقف ہے کہ ’’آج دنیا کو روشنی و حرارت کی جس قدر ضرورت ہے، شاید پہلے نہ تھی۔ اب چاہے وہ چاند کا ٹھنڈا ٹھنڈا نور ہو یا سورج کی تیز چمکیلی پیلی دُھوپ، اُجالا تو مستعار لینا ہوگا، تب ہی بات بنے گی۔‘‘ کلر کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ ’’ہم نے دو خالص ٹھوس رنگوں کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ ایک رنگ اپنی ذات میں جس قدر خاموش اور پُرسکون ہے، دوسرا اُسی قدر شوخ و شنگ، تیز طرّار، چمکیلا بھڑکیلا اور بہت بولتا ہوا سا ہے اور یہ دو رنگ مل کر جب ’’ایک‘‘ ہوں گے تو بھرپور طاقت و قوّت، حوصلہ مندی و خوش اُمیدی، یقین و استحکام کا اظہار کریں گے۔‘‘ اور یوں بھی سال 2020ء کے تلخ ترین تجربات کے بعد دنیا کو ایسے ہی کسی رنگ میں رنگنے کی سخت ضرورت تھی کہ جو بہت اپنائیت و محبّت، اِخلاص و اثبات، فرحت و انبساط اور سُکون و اطمینان کا پیام بَربن کے آئے اور ان دونوں رنگوں میں الگ الگ اور ایک جائی کی صُورت بھی یہ خُوبیاں موجود ہیں۔
خالص سُرمئی رنگ اگر بہت خاموشی سے مثبت طرزِ فکر اور حوصلہ مندی کی جانب مائل کرتا ہے کہ یہ عین کالے اور سفید کے درمیان کا رنگ ہے۔ خاکستری، نقرئی یاسفیدی مائل سیاہ، جو پانی کا رنگ ہے اور زندگی، چاندنی، مہرو وفا کی علامت ہے، تو شوخ زرد، روشن پیلا رنگ بھی اپنی ذات میں متعدد اَسرار و تضادات سموئے ہوئے ہے۔ یہ اپنے ہلکے اور گہرے شیڈزکےساتھ بیک وقت دو انتہائوں کو چُھوتا ہے۔ایک طرف انتہائی گرم جوشی، بھرپور توانائی، شوخی و شرارت، جاہ و جلال کا استعارہ ہے، تو دوسری طرف فسردگی و پژمردگی، نرگسیت و قنوطیت، انتظار و فراق کی کیفیات بھی اِسی سے منسوب ہیں۔
خالص سُرمئی رنگ سے متعلق رنگوں کے علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک دوستانہ، صوفیانہ اور سو فی صد مردانہ رنگ ہے، جو نہ تو سفید ہے کہ مکمل امن کا رنگ کہلائے، اور نہ سیاہ، کہ ماتم و سوگ کا تاثر دے۔ اِسے آسانی سے نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے، مگر گہرائی میں جاکے محسوس کریں، تو اس کی قدامت، توازن، ٹھنڈک اور قدرےپُر اسرایت اپنانے والے کو بہت فیسی نیٹ کرتی ہے۔ جو ایک باراس کےسحر میں گرفتارہوجائے، پھر دوسرے رنگوں سے کم ہی دوستی کرپاتا ہے۔
آپ اسے ذہانت و فطانت، مذاکرات، سمجھوتے یا ڈپلومیسی کا رنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بظاہر سنجیدگی و متانت کا تاثر دیتا ہے، لیکن درحقیقت حِلم و برداشت کا اشارہ ہے۔ اگر سچائی کا کوئی رنگ ہوتا، تو وہ یقیناًسُرمئی ہی ہوتا۔ اور یہ اس لیے بھی اہم ترین رنگ ہے کہ یہ خود تو ہمیشہ نیوٹرل رہتا ہے، مگر ہر رنگ کی گویا روح ہے۔ جب کہ ایک امریکی ماہرِ نفسیات کا تو سُرمئی رنگ سے متعلق کہنا ہے کہ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ سُرمئی ایک غیر جانب دار رنگ ہے۔ لیکن میرے خیال میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی مُوڈی، جذباتی اور ڈرامائی سا رنگ ہے اور اس کے اَن گنت شیڈز ہیں۔‘‘
گہرے زرد یا تیز پیلے رنگ سے متعلق ایک عام خیال ہےکہ یہ رنگ روشنی، تازگی، اُمید، خوشی، طاقت، توانائی اور وفا کا علَم بردار ہے۔ یہ رنگ پسند کرنے والے عموماً خاصے بااعتماد اور مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات کہ یہ فوری متوجّہ کرنے والا رنگ ہے۔ اس سے نہ صرف کئی تہوار، رسوم و رواج بلکہ محاورے، تشبیہات بھی منسوب ہیں۔ جیسے دُلہنوں کا ابٹن، مایوں، کھیتوں میں سرسوں پھولنا، بسنت منانا وغیرہ۔ ہلدی اور زردہ رنگ کی مناسبت سے اسے ہلدی رنگ یا زرد رنگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دھنک کے بنیادی رنگوں میں سےایک ہے، جس کی بدولت کئی ثانوی رنگ تخلیق پاتے ہیں، تو یہ خود اپنی ذات میں بھی ایک مکمل رنگ ہے۔ رنگوں کے ماہرین نےاسے تخلیقی و تجریدی رنگ قرار دیا ہے۔
اُن کا خیال ہے کہ اپنے تصوّرات و خیالات، جذبات و احساسات کے واضح اظہار کے لیے یہ ایک بہترین رنگ ہے اور چوں کہ یہ سورج کا نمائندہ رنگ ہے، ہزاروں میں الگ ہی دکھائی دیتا ہے، تو اس کے ذریعے کسی بھی جذبے کے اظہار میں بھی خاصی شدّت اور گرم جوشی نظر آتی ہے۔ اس ایک رنگ میں اس قدر تنوّع، جدّت و حدّت اور بُوقلمونی ہے کہ آپ اسے ایک خطرناک رنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توانائی کا مآخذ بھی ہے، خوشی و مسّرت کا سِمبل بھی اور اُمید، آس، انتظار، یاد کی علامت بھی۔ تب ہی تو اس سے متعلق جتنا کچھ کہا گیا، شاید ہی کسی اور رنگ سے متعلق کہا گیا ہو۔ مثلاً ’’خاموشی کا رنگ سنہرا ہوتا ہے، مگر جب یہ باقاعدہ محسوس ہونے لگے، تب اس کی رنگت زرد ہوجاتی ہے۔‘‘، ’’یہ روشنی کا قریب ترین رنگ ہے، جس سے فطرت، پاکیزگی جھلکتی ہے اور اِس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خوشی کی لَو دیتے ہوئے بھی بہت پُرسکون رہتا ہے۔‘‘، ’’زرد رنگ بھی کیا کمال رنگ ہے۔ یہ ابہام بھی ہے اور وضاحت بھی۔ کوئی مجھ سے پوچھے، میرا مَن پسند رنگ کون سا ہے، تو میں لمحہ بھر سوچے بغیر ’’پیلا‘‘ کہوں کہ یہ واحد رنگ ہے، جو میرے احساسات کو نہاں بھی رکھتا ہے اور عیاں بھی کردیتا ہے۔‘‘، ’’زندگی بھر کے سفر کو ایک نگاہ میں دیکھنا ہے، تو درخت سے ٹوٹے کسی زرد پتّے کو دیکھ لیں۔‘‘، ’’یہ وہ رنگ ہے، جو صبح سویرے بیداری کی وجہ بنتا ہے۔ جو دن بھر ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ جو دن ڈھلنے کا پتا دیتا ہے۔ جو زندگی کا اصل رنگ ہے اور جو بتاتا ہے کہ اگر ہر سویر کے بعد اندھیرا ہے، تو ہر اندھیرے کے بعد ایک نیا سویرا بھی ضرور طلوع ہوگا۔‘‘
تو… سال 2021ء کورونا کی پرانی، نئی اشکال، اقسام اور لہروں کے باوجود جن دو رنگوں میں رنگا رہےگا، وہ یہی خالص سُرمئی اور تیز پیلا رنگ ہیں۔ تب ہی تو آج ہم نے بھی اپنی بزم اِن ہی کے مختلف شیڈز سے آراستہ و پیراستہ کردی ہے۔ اور یاد رہے، صرف آرایش و زیبایش ہی سے یہ رنگ نہیں جھلکیں گے، بلکہ ان کا ڈیرہ چہارسُو ہوگا۔ لڑکیوں بالیوں کے ملبوسات، سولہ سنگھار سے لے کر، گھروں کے انٹریئر تک، کیاریوں، راہ داریوں سے لے کر ہر طرح کی سواریوں تک اور آفسز کے ڈیکور سے لے کر بھانت بھانت کے گیجیٹس تک یہی دو رنگ چھائے رہیں گے کہ پینٹون کلر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2020ء جس مصیبت اور افراتفری کے عالم میں گزرا، 2021ء کو ایسے ہی دو یک سر منفرد رنگوں کی ضرورت ہے کہ جو طاقت کے ساتھ اُمید و رَجا کے بھی پیام بَرثابت ہوں۔
سو، آپ سال بھر کے تمام تر خوش گوار ایّام، عید تیوہار، شادی بیاہ کے مواقع کے لیے چاہیں تو انفرادی طور پر یا دونوں کے امتزاج کے ساتھ خُوب بنائو سنگھار کی پلاننگ کرلیں کہ وہ کیا ہے ناں ؎ اِک آفتاب کا رنگ، ایک ماہتاب کا رنگ… مِلا کے ڈھالا گیا ہے، تِرے شباب کا رنگ… مِلی نظر جو مِری دفعتاً سرِمحفل… حیا سے رُخ پہ تیرے آگیا گلاب کا رنگ… نکل پڑے ہیں جو جگنو لیے ہوئے قندیل … اُتر گیا ہے تبھی سے اس آفتاب کا رنگ … سلیقہ زیست کو جینے کا ہم نے سیکھا ہے … سَروں پہ جب سے چڑھا ہے تیری کتاب کا رنگ۔