اگر آپ کوئی ایسی تحریر پڑھنا چاہتے ہیں جو بہ یک وقت ہلکی پھلکی بھی ہو اور فکر انگیز بھی تو اردو کے شخصی خاکے پڑھیے۔ بلکہ یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اردو میں اور بالخصوص پاکستان میں صنف ِ خاکہ نگاری کی مقبولیت کا ایک سبب اس کا شگفتہ اور بے تکلفانہ اسلوب بھی ہے۔اگرچہ خاکے میں مزاح ضروری نہیں لیکن شگفتہ مزاجی خاکے کودل چسپ بنا دیتی ہے اور قاری فکر انگیز باتوں کو بھی پڑھنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض خوب صورت اور پُر تاثیر خاکے پڑھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو بھی آسکتے ہیں۔
خاکہ نگاری ایک ایسی نثری صنف ہے جو کسی شخص کے مزاج اور نمایاں اوصاف کو مختصراً اجاگر کرتی ہے۔ خاکہ نگاری کے فن اور اصولوں کی وضاحت کے لیے عموماً کہا جاتا ہے کہ خاکہ مصوّری کی ایک اصطلاح ہے جسے انگریزی میں اسکیچ (sketch) کہتے ہیں ۔ اس میں مصوّرقلم یا پنسل کی چند لکیروں اور روشنی اور اندھیرے کے امتزاج سے کسی شخصیت کے خط و خال یا خد و خال ( خط و خال مَردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے کیو نکہ ’’خط‘‘ مَردوں کا ہوتا ہے )کی نمایاںخصوصیات کو پیش کرتا ہے۔ کچھ نقادوں نے خاکہ نگاری کو پورٹریٹ سے مشابہ بھی قرار دیا ہے ۔
پورٹریٹ بھی فن ِ مصوری کی ایک اصطلاح ہے جس میں کسی فرد کے صرف چہرے کو موضوع بنا کر اس کی شخصیت کے مجموعی تاثرکو رنگوں کی مدد سے پیش کیا جاتا ہے۔ایک اچھا مصورمُوقلم کی مددسے کسی کی حقیقی شخصیت کے ساتھ باطنی شخصیت کے تاثر کو بھی پورٹریٹ میں پیش کرسکتا ہے۔یہی بات شخصی قلمی خاکوں کی صنف کے بارے میںکہی جاسکتی ہے ۔ ایک اچھا خاکہ نگار کسی شخصیت کو چند صفحات میں بے نقاب کرسکتا ہے۔ خاکے کا طویل اور تفصیلی ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ خاکہ نگاری بہرحال سوانح نگاری نہیں ہے اور خاکہ کسی شخصیت کی پور ی زندگی کو بیان کرنے کی بجاے اس کے مزاج اور کردار کی نمایاں خصوصیات کو مختصرا ً سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
خاکہ نگاری کے فن کے دو حصے ہیں یعنی حلیہ نگاری اور کردار نگاری ۔ حلیہ نگاری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : چہرہ اور لباس وغیرہ۔ اس میں خاکہ نگار موضوعِ خاکہ شخصیت کے چہرے مہرے کے علاوہ اس کے لباس وغیرہ کو بیان کرتا ہے۔ دوسرے حصے یعنی کردار نگاری کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے : ظاہری عادات و صفات اور باطنی یا اندرونی شخصیت۔ کامیاب خاکہ نگار صرف چہرے، لباس اور ظاہری عادات کو نہیں دیکھتا بلکہ صاحب ِ خاکہ شخصیت کے باطن میں بھی جھانکنے کی کوشش کرتا ہے اور شخصیت کے ظاہری اطوار اور اس کے بارے میں پائے جانے والے عام تاثر کو کھرچ کر تہہ میں موجود حقیقی کردار اور باطنی شخصیت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر اردو خاکہ نگاری کی تاریخ کو دیکھیں تو خلیق انجم نے لکھا ہے کہ غالب کے اردو خطوط میں بی وفادار نامی ایک ملازمہ کا تذکرہ ملتا ہے جو خاکے کے انداز میں ہے۔اگر اسے اردو کا پہلا خاکہ نہیں تو خاکے کا اولین نقش ضرور کہا جاسکتا ہے۔ گومحمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات (۱۸۸۰ء)میں شعرا کے مرقعے یا ان کی شخصیت اور مزاج کی عکاسی خاکہ نگاری کے ذیل میں تو نہیں آتی لیکن یہ بہرحال اردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ضرور ہیں۔خیال آتا ہے کہ خاکہ نگاری کی صنف کو یہ ہلکا پھلکا ، بے تکلفانہ، برجستہ اور بے ساختہ انداز ورثے میں ملا ہے کیونکہ اردو خاکہ نگاری کی ابتدائی جھلکیاں ’’آب ِ حیات‘‘ میں ملتی ہیں ۔
اس کے بعد اردو کا پہلا’’باقاعدہ‘‘ خاکہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے لکھے ہوئے مولوی نذیر احمد دہلوی کے خاکے کو مانا جاتا ہے جس کا انداز نیم مزاحیہ اور بے تکلفانہ ہے اور جس میں انھوں نے اپنے استادِ محترم مولوی نذیر احمد کی شخصیت کی بعض کجیوں کو بھی شگفتہ انداز میں گھما پھرا کر بیان کردیا ہے اور یہیں سے خاکہ نگاری کا یہ دوسرا اصول بھی بن گیا کہ خاکے کو محض مدح سرائی نہیں ہونا چاہیے بلکہ جس شخصیت کا خاکہ لکھا جارہا ہے اس کی بشری کم زوریوں کو بھی احتیاط سے بیان کردینا چاہیے کہ ہم سب آخر انسان ہیں اور عربی کا مقولہ ہے :الانسانُ مرکب ـ’‘من الخطا و النّسیان ۔اردو میں کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ یحییٰ امجد کی یہ بات درست ہے کہ خاکہ لکھنے اور خاکہ اُڑانے میں فرق ہونا چاہیے۔ خامیوں اور کم زوریوں کو اُچھالنا نہیں چاہیے اور اسی طرح خوبیوں کے بیان میںمبالغہ آرائی بھی نہیں ہونی چاہیے ۔لیکن شخصیت کی نمایاں اور منفرد خاصیتوں کو ابھارنا ضروری ہے ۔بقولِ ڈاکٹر بشیر سیفی ،خاکہ نگاری کا مقصد سوانحی حالات بیان کرنا نہیں بلکہ صاحب ِ خاکہ شخصیت کی انفرادیت کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔
ابوالخیر کشفی صاحب نے اپنی خاکوں کی کتاب یہ لوگ بھی غضب تھے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ اردو کا پہلا خاکہ سجاد حیدر یلدرم نے لکھا تھاجس کا عنوان خافی خاں تھا اور یہ حسرت موہانی کا خاکہ تھا جورسالہ ’’زمانہ ‘‘(کان پور) کے دسمبر ۱۹۰۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا ۔
لیکن ضروری نہیں کہ خاکہ صرف مشہور یا ان لوگوں کالکھا جائے جو معروف معنوں میں’’بڑے آدمی‘‘ ہوں کیونکہ بعض گم نا م یا غریب افراد بھی ’’بڑے آدمی‘‘ ہوتے ہیں ۔ بعض بڑے آدمی بہت چھوٹے انسان ہوتے ہیںاور بعض بظاہر چھوٹے لوگ بہت بڑے انسان ہوتے ہیں۔
مولوی عبدالحق اور رشید احمد صدیقی نے اپنے بعض خاکوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ عظمت صرف بڑے یا نام ور لوگوں کی میراث نہیں بلکہ غریب اور گم نام افراد بھی انسانی عظمت کے معیار پر پورا اترسکتے ہیں اوریہی اصل بڑائی ہے۔ اسی لیے وہ خاکوں کا موضوع بھی بن سکتے ہیں۔
یہاں اردو کے بہترین خاکوں کے ضمن میں کچھ نام پیش کیے جارہے ہیں۔ گزارش ہے کہ اردو کے بلا مبالغہ ہزاروں خاکوں میں سے بہترین کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں ہے اور دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ کوئی حتمی فہرست نہیں ہے ۔ قارئین اپنی پسند و ناپسند کے مطابق اس فہرست میں ترمیم کرسکتے ہیں۔تیسرے یہ کہ اس فہرست کی تیاری میں یقینا کئی کتابوں سے مدد لی گئی ہے جن کے نام دینا یہاں ممکن نہیں ہے۔
۱۔نذیر احمد کی کہانی (فرحت اللہ بیگ)
مرزا فرحت اللہ بیگ کے لکھے ہوئے مولوی نذیر احمد دہلوی کے خاکے کا پورا نام ذرا طویل ہے یعنی ’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی‘‘ ۔ فرحت نے کمال مہارت سے اپنے استاد کی شخصیت کو کاغذ پر اتار دیا ہے۔ مولوی صاحب نہ صرف ایک سنجیدہ ادیب تھے بلکہ مذہبی شخصیت بھی تھے اور علی گڑھ تحریک سے بھی وابستہ رہے ۔ لیکن نجی زندگی میں خوش مزاج اور بذلہ سنج تھے جس کی عکاسی کو فرحت نے اپنے شگفتہ انداز سے نہایت دل چسپ بنادیا ہے۔ فرحت نے اپنے استاد کی خامیوں سے نظریں نہیں چُرائیں البتہ انھیںاُچھالا نہیں ہے بلکہ انسانی کم زوریوں کے طور پر پیش کیا ہے۔خوب صورت اور بامحاورہ اردو میں لکھا گیا یہ طویل خاکہ رشید حسن خاں کے مقدمے کے ساتھ دہلی سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
۲۔ نام دیو مالی (مولوی عبدالحق)
باباے اردو مولوی عبدالحق کا یہ متاثر کن خاکہ ایک ایسے مالی کی شخصیت کو پیش کرتا ہے جو ایک غریب اور بے جا طور پر حقیر سمجھے جانے والے طبقے سے تعلق رکھتا تھا ۔ نام دیو مالی کو اپنے کام سے عشق تھا ۔لیکن ایک دن کام کے دوران میں اس پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا ۔ گو اس حملے سے نام دیو مرگیا لیکن اس مختصر خاکے نے اسے اَ مَر کردیا۔ مولوی عبدالحق اس خاکے میں بتاتے ہیں کہ عظمت کیا ہوتی ہے اوریہ غریب مالی ایک عظیم شخصیت کیوں تھا۔ یہ خاکہ باباے اردو کی کتاب چند ہم عصر میںشامل ہے جس میں نام ور لوگوں کے خاکے ہیں۔
۳۔کندن (رشیداحمد صدیقی )
کُندن ایک نیم خواندہ اور غریب ہندو چپراسی تھا جس کے کاموں میںسے ایک کام علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیریڈ ختم ہونے یا وقفہ ہونے پر گھنٹا بجانا بھی تھا۔ رشید احمد صدیقی نے اس خاکے میں لکھا ہے کہ کندن دوسرے کاموں کے ساتھ یونی ورسٹی میں گھنٹا بجانے کاکام بھی نہایت ذمے داری اور پابندی سے پینتیس سال تک انجام دیتا رہا۔ وہ ایک بے غرض اور بے تعصب انسان تھا۔ آزادی کے بعد یعنی ۱۹۴۷ء میںہونے والے فسادات میں کندن نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ایک مسلمان گھرانے کو بچایا۔رشید احمد صدیقی نے اپنے مخصوص نیم مزاحیہ میں جس طرح کندن کو خراج ِ تحسین پیش کیا ہے وہ بجا طور اس کا مستحق تھا۔یہ خاکہ رشید صاحب کی کتاب ہم نَفَسانِ رفتہ میں شامل ہے اور اس میں عظیم شخصیات کے خاکے ہیں ۔ نیم خواندہ ہندو چپراسی کندن بھی ایک عظیم شخصیت تھا۔
۴۔تین گولے (سعادت حسن منٹو )
سعادت حسن منٹو کا کہنا تھا کہ کسی کے انتقال کے بعد ہمارے ہاں اس کی شخصیت کو لانڈری میں بھیج دیا جاتا ہے ۔منٹو اس کا قائل نہیں تھا لیکن وہ انسانوں سے پیار بھی کرتا تھا۔ البتہ اس کی ہمدردی اور محبت اس کی بے رحما نہ حقیقت نگاری کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔وہ جن طبقات کی حالت کا نقشہ سفاکی سے کھینچتا ہے دراصل ان کے لیے کڑھتا ہے۔ تین گولے نامی خاکے میں منٹو نے اردو کے معروف شاعر میرا جی کی دکھ بھری زندگی اور اس کی نفسیاتی الجھنوں کو کامیابی سے کاغذ پر منتقل کیا ہے۔ میرا جی کا یہ خاکہ منٹو کی کتاب گنجے فرشتے میں شامل ہے۔
۵۔میر ناصر علی (شاہد احمد دہلوی)
میر ناصر علی دہلی کی تہذیب کا وہ نمونہ تھے جن پر دہلی والے فخر کیا کرتے تھے۔ میر ناصر اپنی جوانی کے دنوں میں بزرگ سرسید احمد خان سے ان کے جدید نظریات کی وجہ سے الجھا کرتے اور سرسید انھیںمحبت سے ’’ناصحِ مشفق ‘‘ کہا کرتے ۔ شاہد احمد دہلوی نے اپنی خوب صورت اور بامحاورہ دہلوی اردو میں میر ناصر علی کی شخصیت کو خوب پیش کیا ہے اور یہ ان کی کتاب گنجینۂ گوہر میں شامل ہے۔
۶۔ دوزخی (عصمت چغتائی)
یہ ایک عجیب و غریب خاکہ ہے جو بہ یک وقت مزاحیہ اور المیہ ہے۔ عظیم بیگ چغتائی کی وفات کے چند روز بعد ان کی بہن عصمت چغتائی نے ان کا یہ خاکہ لکھا اور گویا قلم توڑ کر رکھ دیا۔ دوزخی نہایت کامیابی سے عظیم بیگ چغتائی کی اندرونی اور باطنی شخصیت کو پیش کرتا ہے۔ یہ پہلے ’’ساقی ‘‘میں چھپا اورپھر عصمت کی کتاب ’’چوٹیں ‘‘ میں شامل ہوا۔
۷۔حکیم فقیر محمد چشتی( عبدالمجید سالک)
عبدالمجید سالک کی کتاب ’’یاران ِ کہن ‘‘میں کئی دل چسپ خاکے موجود ہیں لیکن ان میںلاہور کے مشہور حکیم فقیر محمد چشتی کا خاکہ خود حکیم صاحب کی شخصیت اور اس کے تنوع کی وجہ سے بھی دل چسپ ہے اور سالک نے ان کی شخصیت کو پیش بھی خوب کیا ہے۔
۸۔عابد صاحب (محمد طفیل)
’’نقوش ‘‘کے مدیر محمد طفیل نے خاکہ نگاری کو اس طرح اپنایا کہ صرف خاکے ہی لکھے۔ ان کے خاکوں کے آٹھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے خاکوں کی کام یابی کی ایک وجہ ان کا نیم مزاحیہ انداز بھی ہے اور شخصیت کے تمام پہلو پیش کرنا بھی۔ ان کا لکھا ہوا سید عابد علی عابد کا خاکہ جو عابد صاحب کے عنوان سے ہے ان کے بہترین خاکوں میں شامل ہے۔
۹۔میلہ گھومنی (ممتاز مفتی)
جب ممتاز مفتی جیسا کہنہ مشق ادیب اور نفسیات میں درک رکھنے والا شخصی خاکے لکھتا ہے تو اوکھے لوگ جیسی کتاب سامنے آتی ہے جس میں ایکس رے کی طرح شخصیات کی اندرونی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ نیم مزاحیہ انداز مین ان کا پروین عاطف کا لکھا ہوا خاکہ میلہ گھومنی پڑھنے کے قابل ہے۔ یہ ان کی کتاب ’’اوکھے لوگ‘‘ میں شامل ہے۔
۱۰۔جانِ بے تاب (اسلم فرخی)
دورِ حاضر میں جن اہل قلم نے خوب صورت اور رواں اردو لکھ کر صاحب ِ طرز نثر نگار وں کی صف میں جگہ حاصل کرلی ان میں اسلم فرخی بھی شامل ہیں ۔ ان کا لکھا ہوا خاکہ جان ِ بے تاب جو ان کے خاکوں کے مجموعے’’ لال سبز کبوتروں کی چھتری ‘‘میں شامل ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔