المیہ یہ ہے کہ یہ شریف، ہر شریف کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پیشکش دے کر کسی کو بھی ساتھ ملایا جاسکتا ہے ۔چونکہ خود عہدے اور اقتدار کے لئے ہر حد تک جانے کوتیار رہتے ہیں اس لئے سمجھ بیٹھے کہ ہر شریف ایسا ہی سوچے گا۔ چنانچہ تاثر ہے کہ توسیع کی پیشکش دی گئی اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے خبریں پھیلائیں لیکن وہ شریف مختلف نکلے۔ ایسے واشگاف الفاظ میں توسیع لینے سے انکار کیا کہ یہ شریف دم بخود رہ گئے۔ اب جب ہر طرف احتساب کا نعرہ بلند ہوا اور وہ شریف بھی بلاامتیاز احتساب پر زور دینے لگے تو یہ شریف میڈیا میں موجود اپنے غیراعلانیہ ترجمان میدان میں لے آئے ۔ وہ ۱ُس شریف کے پیش روئوں کا بہ تکرار تذکرہ کرکے دہائی دینے لگے کہ دوسروں کے احتساب کے متمنی وہ شریف گھر کی طرف کیوں دھیان نہیں دیتے اوراحتساب مطلوب ہے تو اپنے گھر سے آغاز کیوں نہیں کرتے ۔ چنانچہ اُ س شریف نے گھرسے آغاز کرکے سب کو حیران کردیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ شریف پہلی مرتبہ ایسے پھنس گئے ہیں کہ چاپلوس مشیر، ان کا حوصلہ بڑھاسکتے ہیں اور نہ اتفاق گروپ کے دانش فروش دانشور ان کی صفائی پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ شریف اس لئے بھی بدترین ذہنی دبائو کے شکار ہیں کہ اب کی بار ایسے جرم کے مرتکب قرار پائے ہیں کہ جس میں گھر کے چھوٹے شریف ، شریک نہیں اور پہلی بار وہ شخصیات جن کا ستار ایدھی جیسا تاثر تھا، کی دیانتداری کا پول بھی کھل گیا۔ اللہ کے فضل و کرم سےاب کی بار ایسے رنگوں ہاتھوں پکڑے گئے ہیں کہ ترجمانوں نے اِس شریف کی ذات کے گرد اخلاقیات کا جو مصنوعی قلعہ تعمیر کیا تھا ، وہ دھڑام سے گرگیا ہے اور میڈان پاکستان قیادت کے دعویدار میڈان منافقتستان ثابت ہوگئے ہیں ۔ یہ شریف پہلی مرتبہ ایسے زیردام آگئے ہیں کہ اب ان کو صرف اور صرف ، خان کی سیاسی حماقتیں ہی بچاسکتی ہیں ۔ اگر خان باز آکر کم از کم آرام سے خاموش بھی بیٹھ گیا تو اس شریف کا بچنا ناممکن ہے ۔ تبھی تو میری درخواست ہے کہ اگر کوئی اس شریف کا محاسبہ چاہتا ہے تو وہ کچھ دنوں کے لئے پاکستان کے اس واحدمعمر ترین نوجوان کو سیاست سے باز رکھے ۔
عدالتی کمیشن پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کے ذہنی معائنے کے لئے بنناچاہئے کہ جو میاں نوازشریف کے مخالف ہوکر بھی پاناما لیکس کے معاملے پر عدالتی کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ جرم تو ثابت ہوچکا ہے تو پھر کمیشن کس بات کے لئے ۔وزیراعظم صاحب دعویٰ کرتے رہے کہ ان کی زندگی کھلی کتاب ہے ۔ لیکن ثابت ہوچکا اور خود ان کے صاحبزادوں نے میڈیا پر آکر گواہی دی کہ وہ بیرون ملک آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے اتنی جائیدادوں کے مالک ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ وہ اولاد نہیں کہ جو آزاد اور خودمختار ہو اور جنہوں نے خود اپنی کمائی کی ہوگی۔ ان کی جو بھی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت ہے ، وہ اپنے والد محترم ہی کی وجہ سے ہے ۔ اسی طرح قوم کے سامنے غلط بیانی کا جرم بھی ثابت ہوچکا ہے ۔الیکشن کمیشن کے سامنے کبھی بیرون ملک موجود دولت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ سولہ سال قبل ایک بیٹے بی بی سی ٹی وی پرآکر ، لندن میں فلیٹس کی ملکیت سے انکار کرچکے تھے جبکہ دوسرے بیٹے اور مالک ٹی وی پر آکر کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ نوے میں خریدے گئے تو کوئی کہتا ہے کہ سعودی عرب کی اسٹیل مل فروخت کرکے اس کو خریدا گیا۔ اس کے بعد بھی کیا ، غلط بیانی کا جرم ثابت نہیں ۔ اسی طرح میڈ ان پاکستان کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا۔ جو لیڈر پاکستان میں کما کر بیرون ملک (کسی بھی طریقے سے ہو) منتقل کرے ،وہ کیوں کر میڈان پاکستان کہلائے جاسکتے ہیں ۔ ان کا سیاسی نعرہ یہی تھا کہ وہ پاکستان پر سرمایہ کار کا اعتماد بحال کررہے ہیں ۔ جب وزیراعظم کے بیٹے بیرون ملک رہیں اور کسی بھی خوف سے سرمایہ پاکستان منتقل نہ کرسکیں تو کسی ملکی یا غیرملکی سرمایہ کار کا پاکستان پر اعتماد کیسے بحال ہوسکتا ہے ۔ اب ان حالات میں کمیشن بنانے کی کیا منطق ؟ لیکن میاں نوازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو آصف علی زرداری اور عمران خان جیسے اپوزیشن لیڈر مل گئے ہیں ۔ ایک بلاواسطہ ان کی مدد کررہے ہیں اور دوسرے بالواسطہ ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرانزک تحقیقات اور کمیشن کا مطالبہ اس لئے کررہے ہیںکہ انہیں علم ہے کہ یہ تحقیقات کبھی نہیں ہوسکیں گی ۔ اس کے لئے پاناما ، برطانیہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کا تعاون درکار ہوگا اور ان میں سے کوئی بھی ملک دستاویزات تک رسائی نہیں دے گا۔ کمیشن کمیشن ہوتا رہے گا لیکن منطقی انجام تک معاملہ پچاس سال میں بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ دوسری طرف عمران خان صاحب نے پہلے اپنے لئے پی ٹی وی پر خطاب کا مطالبہ کیا ، حالانکہ اگر کوئی حق بنتا بھی تھا تو سید خورشیدشاہ جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں کا بنتا تھا۔ پھر اپنے اتحادیوں تک سے مشورہ کئے بغیر کمیشن کے لئے ڈاکٹر شعیب سڈل کا نام پیش کردیا۔ لوگوں نے متوجہ کیا تو سابقہ مطالبے سے پھر گئے اور اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں مطالبہ کررہے ہیں ۔ گویا اب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا مطالبہ ایک ہے ۔ اور اگر ان کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تحت بھی کمیشن بن گیا تو میاں نوازشریف کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ یہ معاملہ ٹی وی اسکرین سے ہٹ کر اور سیاسی افق سے اتر کر کسی عمارت میں بند ہوجائے ۔ کمیشن بننے کے بعد ہم سوال اٹھائیں گے تو حکومتی ترجمان جواب دیں گے کہ کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں ۔ ہوسکتا ہے کہ زیرسماعت ہونے کی وجہ سے اس پر بحث مباحثہ بھی بند ہوجائے ۔ نہ پاکستانی عدالت پانامااور برطانیہ کی دستاویزات اور بینکوں تک رسائی حاصل کرسکے گی اور نہ کبھی یہ معاملہ منطقی انجام کو پہنچے گا ۔ اب اپوزیشن کی طرف سے اس سے بڑھ کر خدمت اور کیا ہوسکتی ہے اور کیا یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اگر پیپلز پارٹی براہ راست خدمت کررہی ہے تو تحریک انصاف بالواسطہ اس کام میں لگی ہے ۔ خان صاحب دھرنوں کی حماقت نہ کرتے تو میاں صاحب ، کب کی اپنی حکومت ختم کرچکے ہوتے ۔ اب الحمداللہ انہوں نے دوبارہ اپنی سیاسی خودکشی کے تمام لوازمات پورے کردئیے ہیں لیکن خان صاحب پہلے کمیشن کا مطالبہ کرکے اور اب ہندوستان کے ساتھ ساز باز کا لغو الزام لگا کر دوبارہ میاں صاحب کی مدد کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ وہ الزام لگارہے ہیں کہ میاں صاحب فوج کو بدنام کرنے کی سازش کررہے ہیں ، حالانکہ اس کام میں خان صاحب کا کوئی ثانی نہیں ۔ پہلے انہوں نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے جھوٹ بولا کہ جنرل راحیل شریف ان کے پیچھے ہیں اور دھرنوں کے دوران امپائر امپائر کے نعرے لگا کر فوج کو سیاست میں گھسیٹتے اور بدنام کرتے رہے ۔ اب دوبارہ وہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرکے اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں لیکن الحمدللہ خان صاحب کے معاملے میں میاں نوازشریف بھی کافی مہربان واقع ہوئے ہیں ۔ خان صاحب نے دھرنوں کے ڈرامے رچا رچا کر میاں نوازشریف کی پارٹی کے اندر جمہوریت کے فقدان اور گورننس کو موضوع بحث نہیں بننے دیا تو مسلم لیگ (ن) نے بھی کبھی ان حوالوں سے خان صاحب کو ایکسپوز نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی جماعت کے اندران کے لئے حسب منشادھاندلی نہ کروانے پر اپنی جماعت کے دو چیف الیکشن کمشنروںکو فارغ کیا اور اب انٹراپارٹی انتخابات سے مکر گئے لیکن مسلم لیگ(ن) نے اس معاملے کو کبھی صحیح طریقے سے نہیں اچھالا۔ جس دن عمران خان نے پاناما لیکس کے لئے شعیب سڈل کی قیادت میں کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اس روز تحریک انصاف کے معزول وزیر معدنیات ضیاء اللہ آفریدی نے خان صاحب کے نام ای میل میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگا کر مطالبہ کیا کہ وہ پرویز خٹک کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لئے اسی شعیب سڈل کی سربراہی میں کمیشن بنا ئیںلیکن مسلم لیگ(ن) نے اس ایشو کو سرے سے اچھالاہی نہیں ۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ بینک آف خیبر کے ایم ڈی نے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کرکے پرویز خٹک کابینہ کے وزیر پر بدعنوانی کے الزامات لگائے اور جواب میں اسی وزیر نے اسی طرح سرکاری خزانے سے اشتہارات شائع کروا کر بینک آف خیبر کے ایم ڈی پر بدعنوانی کے الزامات لگائے لیکن تماشہ یہ ہے کہ وزیر بھی بدستور وزیر ہیں اور ایم ڈی بھی تادم تحریر ایم ڈی ہیں ۔ دونوں کی تقرری اور تنزلی پرویز خٹک کا اختیار ہے اور میری معلومات کے مطابق ایم ڈی نے جماعت اسلامی کے وزیر کے خلا ف اشتہار عمران خان صاحب کی اجازت سے شائع کروایا ۔ بھرپور ابلاغی وسائل ہونے کے باوجود مسلم لیگ(ن) نے اس تماشے کو ذرہ بھر نہیں اچھالا۔ جس عمران خان اور سراج الحق نے اپنی حکومت کے مقرر کردہ احتساب کمشنر کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور جس نے میڈیا پر آکر ان کی مخلوط حکومت پر شدید بدعنوانیوں اور احتساب کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزامات لگائے ، وہ دونوں میاں نوازشریف کے احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں ، یہ ڈرامہ نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ سچی بات یہ ہے کہ ہر طرف مک مکا چل رہا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کہیں بالواسطہ ہے اور کہیں بلاواسطہ ۔ حل صرف یہ ہے کہ میاں صاحب اخلاقی جواز کھونے کے بعد مستعفی ہوجائیں ۔ احتساب کا ایسا جامع نظام بنایا جائے جو سب کا یکساں احاطہ کرے اور جس پر سب کو اتفاق ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اتفاق رائے سے ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنایا جائے جو نئے رولز آف گیم کا بھی تعین کرے۔