بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے گشتری میں دہشت گردی کے واقعے میں شہید ہونے والے ہزارہ کانکنوں کی سانحے کے 6 روز تک احتجاج اور دھرنا کے بعد تدفین کردی گئی ، ہفتہ رفتہ کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 68 کلومیٹر جبکہ مچ سے تین کلومیٹر دور پہاڑی علاقے میں واقع علاقہ گشتری میں 3 اور 4 جنوری کی درمیانی شب دہشت گردوں کی جانب سے 10 کان کنوں کو ہاتھ پاوں باندھ کر تیز دھار آلہ سے قتل کیا گیا تھا ، واقعے کی اطلاع کئی گھنٹے بعد ملنے پر بلوچستان کو سندھ و پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ پر لواحقین نے لاشیں رکھا کر احتجاجی دھرنا دیا اور پانچ گھٹنے کے بعد انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد شاہراہ کھول دی گئی تھی۔
تاہم دس کان کنوں کے قتل کے دلخراش واقعے کے بعد شہدا کے لواحقین ، مجلس وحدت مسلمین اور ہزارہ برادری نے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر لاشیں رکھ کر دھرنا دیا تھا جو چھ روز تک جاری رہا ، اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز ، سابق وفاقی وزیر احسن اقبال ، رانا ثنا اللہ ، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سمیت بلوچستان سمیت ملک بھر سے سیاسی رہنماوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے اظہار یکجہتی کیا۔
اس دوران پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید ، بعد ازاں وفاقی وزیر علی زیدی ، زلفی بخاری اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے شہدا کے لواحقین کے ساتھ تین بار مذاکرات ہوئے جو تینوں بار ناکام ہوگئے تھے اس دوران شہدا کے لواحقین اور دھرنے کے شرکا نے وزیراعظم کے کوئٹہ آنے تک دھرنا ختم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس دوران وزیراعظم عمران خان کا موقف سامنے آیا تھا کہ لواحقین شہدا کی تدفین کردیں جس کے بعد وہ کوئٹہ آئیں گے ، جمعہ 8 جنوری کی نصف شب 12 وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں وفاقی وزیر علی زیدی ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری ، معاون خصوصی وزیراعظم زلفی بخاری ، صوبائی وزیر میر ضیاء اللہ لانگو ، رکن صوبائی اسمبلی مبین خلجی ، چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ر) فضیل اصغر سمیت دیگر پر مشتمل اعلیٰ سطح کا وفد مغربی بائی پاس پر جاری دھرنے میں پہنچا تھا جہاں ایک بار پھر مذاکرات ہوئے اس بار تحریری معاہدہے کے بعد مذاکرات کامیاب ہوئے اور دھرنا منتظمین نے دھرنا ختم کرتے ہوئے شہدا کی تدفین کا اعلان کیا جس کے بعد ہفتہ 9 جنوری کوسانحہ مچ کے شہدا کو ہزارہ ٹاون قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔
نماز جنازہ میں وفاقی و صوبائی وزرا ، چیف سیکرٹری ٗ، کمشنر کوئٹہ ،ٗ بلوچستان شیعہ کانفرنس اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ شہدا کی تدفین کے بعد اسی روز دوپہر کو وزیراعظم عمران خان نے کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا ، دورئے کے دوران وزیراعظم نے امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کے ساتھ شہدا مچ کے لواحقین سے ملاقات بھی کی ، لواحقین سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ مچ کے فوری بعد وزیراعلیٰ اور وفاقی وزراء کو ہزارہ برداری کے پاس بھیجا بار بار پیغام بھجوایا کہ شہدا کی تدفین کردیں میں فوری طور پر آپ کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے آؤں گا لیکن جب آپ شرط لگائیں گے تو کل کو ہر واقعے پر یہ روایت چل پڑیگی۔
صورتحال کے حوالے سے وفاقی وزرا ، سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا پوری طرح ایک ایک چیز دیکھ رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے ہزارہ برداری اور لواحقین کی تکلیف میں صرف میں ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان شامل تھا شکر ہے کہ لواحقین نے ہماری بات مانتے ہوئے شہداء کی تدفین کی جبکہ اس سے پہلے وفاقی وزرا کو کوئٹہ میں دھرنے کے مظاہرین کے پاس بھیجا تھا اور پیغام دیا تھا کہ سانحہ مچ میں ملوث افراد کے پیچھے پوری طرح جائیں گے اب بھی لواحقین اور ہزارہ برداری کو اعتماد دلاتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جائیگی ہم نے جو وعدے کئے ہیں انہیں پورا کریں گے ۔
قبل ازیں مچ واقعہ سے متعلق دھرنا منتظمین اور حکومت کے درمیان 6 نکاتی تحریری معاہدہ طے پاگیا جس کے تحت مچ واقعہ کی تحقیقات کیلئے وزیرداخلہ کی سربراہی میں خصوصی کمیشن قائم ، غفلت برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی ، ہزارہ برادری کی سیکورٹی کیلئے نیا پلان ، لواحقین کو روزگار کی فراہمی ، ہزارہ برادری کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سے متعلق مسائل حل کئے جائیں گے ۔
حکومت بلوچستان اور مچ واقعہ کے بعد پہلی بار کوئی تحریری معاہدہ ہوا ہے ۔ جس کے مطابق دونوں فریقین سانحہ مچ کی تحقیقات کیلئے وزیرِ داخلہ بلوچستان کی سربراہی میں خصوصی کمیشن کی تشکیل پر رضامند ہیں ۔
مذکورہ خصوصی کمیشن میں 2 ممبران اسمبلی ، ڈی آئی جی رینک کا ایک افسر اور شہدا کے لواحقین میں سے 2 افراد کو شامل کیا جائے گا ۔ اگر جے آئی ٹی میں کسی ذمہ دار افسر کو سانحہ مچ کے حوالے سے ذمہ دار قرار دیا گیا تو ان کے خلاف سخت کاروائی ہوگی ۔ خصوصی کمیشن کے طے کردہ ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کا کام سانحہ مچ تحقیقات کی نگرانی ہوگی ۔ جبکہ گزشتہ 22 برس میں ہزارہ برادری پر جو حملے ہوئے ان کی باریک بینی سے تفتیش کی جائے گی ۔ خصوصی کمیشن ہزارہ برادری کے لاپتہ افراد سے متعلق تحقیقات بھی کرے گا ۔
صوبائی حکومت اور حساس ادارے مل کر سیکورٹی صورتحال پر نیا پلان مرتب کریں گے ہزارہ برادری کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سے متعلق مسائل کے حل کیلئے ڈی جی نادرا و پاسپورٹ حکام کام کریں گے ، شہدا کے لواحقین کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے ۔
بلوچستان حکومت شہدا کے لواحقین کو فی کس 15 لاکھ روپے دے گی ، مجلس وحدت مسلمین کے رہنما سابق صوبائی وزیر آغا محمد رضا نے بتایا کہ شہداء کے لواحقین کو فی کس 25 لاکھ روپے دیا گیا ہے پہلے مرحلے میں شہداء کے لواحقین کو 15 لاکھ روپے کیش دئیے جبکہ مزید 10 لاکھ روپے دئیے جائیں گے ۔ دوسری جانب ہزارہ برداری کے نوجوانوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہزارہ برداری کے احتجاجی دھرنے سے متعلق بیان پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ لگاکروزیراعظم سے بیان واپس لینےاورمعافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔