اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت مخالف ملک گیر احتجاجی تحریک کیلئے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں احتجاجی جلسوں کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام پذیر ہوگیا ہے،22نومبر کو پشاور میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے بعد 23دسمبر کو مردان،6جنوری کو بنوں اور11جنوری کو ملاکنڈ میںریلی اور جلسہ کا انعقاد کرکے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی تاہم پی ڈی ایم کی طویل احتجاجی تحریک اور اس دوران بعض اندرونی اختلافات کے بعد اب ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اپوزیشن کی حکومت ہٹانے کی تحریک شاید اپنے نتائج کے حصول میں ناکام ہوگئی ہے۔
یکم جنوری کو لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ جنوری میں لانگ مارچ موخر ہوگیا ہے اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ حکومت کے پاس مستعفی ہونے کیلئے 31جنوری تک ایک ماہ کا وقت ہے ، اگر وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا تو یکم فروری کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں لانگ مارچ کا اعلان ہوگا تاہم پی ڈی ایم کے قائدین اب یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ فروری میں ’’مارچ‘‘ اور سینیٹ انتخابات سے قبل استعفوں کا کوئی امکان نہیں چنانچہ فروری میں ضمنی انتخابات اور مارچ میں سینیٹ الیکشن کے بعد رمضان المبارک کی آمد اور پھر بجٹ کا مرحلہ بالکل سر پر ہوگا، یقینی آئندہ دو، اڑھائی مہینے سڑکوں کی بجائے نہ صرف پارلیمان کا اندرونی ماحول زیادہ گرم رہے گا بلکہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کیلئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ فروری میں صوبہ خیبر پختونخوا سمیت دیگر صوبوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے اور ساتھ ہی ماہ فروری ہی سے سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کے اجرا اور جمع ہونے کے بعد مزید کاروائی شروع ہوجائے گی۔
چنانچہ ایسے میں اپوزیشن لانگ مارچ کی تیاری کرے گی یا پھر ضمنی و سینیٹ انتخابات پر توجہ مرکوز کرے گی؟ اگر یکم فروری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ کی بجائے ریلیوں اور جلسوں کی صورت میں احتجاجی تحریک کے تیسرے مرحلہ کا اعلان کیا گیا تو اس سے اپوزیشن کی تحریک تو زندہ رہے گی لیکن اس میں وہ جان باقی نہیں رہےگی جس کیلئے یہ شروع کی گئی تھی چنانچہ اپوزیشن کو فروری میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کرنا ہوگا یا پھر 2019کے آزادی مارچ کی ناکامی کی طرح سبکی سے بچنے کیلئے کوئی محفوظ راستہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ ضمنی اور سینیٹ انتخابات، رمضان المبارک اور بجٹ کا مرحلہ مکمل ہوتے ہوتے ملک میں گرمی کا موسم عروج پر پہنچ چکا ہوگا جس میں کارکنوں کو باہر نکالنا اور تحریک جاری رکھا انتہائی مشکل ہوگا، بہر حال اس تمام تر صورت حال کو مد نظر رکھ کر کم از کم اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے حکومت جانے کے امکانات مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب اور سندھ کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ضمنی انتخابات کیلئے تیاریاں زور و شور کیساتھ جاری ہیں، خیبر پختونخوا میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر ضمنی انتخابات 19 فروری کو ہو رہےہیں جس کیلئے کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے،پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ خیبرپختونخوا نےضمنی انتخابات کیلئے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے نشستوں کی تقسیم کے فارمولا پر بھی غور شروع کیا ہے جس کے مطابق پی ڈی ایم جماعت کی خالی کردہ نشست اسی پارٹی کو ملے گی جبکہ جو نشست پی ڈی ایم کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے خالی کی ہے اس پر دوسرے نمبر پر آنے والی اپوزیشن پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی جائیگی۔
مجوزہ فارمولا کی رو سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے63نوشہرہ کی نشست مسلم لیگ ن اور قومی اسمبلی کی نشست این اے45ضلع کرم جمعیت علمائے اسلام کو ملنے کا امکان ہےکیونکہ 25جولائی 2018کے عام انتخابات میں این اے45کرم سے منیر اورکزئی (مرحوم) نے مجلس عمل کے ٹکٹ پر16255ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی اسی طرح پی کے63نوشہرہ سے تحریک انصاف کے امیدوار میاںجمشید الدین(مرحوم) 24832 ووٹ لیکر فتحیاب ہوئے تھے جبکہ اسی حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار ولی خان 13987 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے چنانچہ امکان ہے کہ قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کیلئے پی ڈی ایم کا متفقہ امیدوار جے یو آئی اور صوبائی اسمبلی سے پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار مسلم لیگ ن کا ہوگا، مسلم لیگ ن نے نوشہرہ کی نشست پر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے حصول کیلئے جرگہ تشکیل دیدیا ہے۔
لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر مقام کی سربراہی میں لیگی جرگہ نے ہفتہ کے روز جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمان کیساتھ ملاقات کرکے اپنا امیدوار دستبردار اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کی درخواست کی جس پر مولانا عطا الرحمان نے امیر مقام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوشہرہ ضمنی انتخابات کےلئے اپنا امیدوار مفتی حاکم علی حقانی کی دستبرداری اور مسلم لیگ ن کی حمایت کا اعلان کیا ، لیگی جرگہ اس ضمن میں رواں ہفتہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے قائدین کیساتھ بھی ملاقات کرے گا۔
ادھر خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی ضمنی انتخابات میں کامیابی کیلئے سرگرم ہے ، پی ٹی آئی نے نوشہرہ ضمنی انتخابات کیلئے مرحوم ایم پی اے میاں جمشید الدین کا کا خیل کے صاحبزادے کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنیکا فیصلہ کیا ہے ،حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تیاریاں، رابطہ عوام اور انتخابی مہم جاری ہے، درحقیقت خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں ضمنی انتخابات نئے سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے کیونکہ یہ انتخابات ایک ایسے موقع پر ہورہے ہیں جب ملک بھر میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین تناؤ اور اختلافات کی خلیج روز بروز بڑھتی جارہی ہے جسکی وجہ سے ضمنی الیکشن حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی مقبولیت کے دعوؤں کیلئے کسوٹی ثابت ہوں گے جہاں تک خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات کا تعلق ہے تو یہ یقیناً صوبائی حکومت اور خاص کر وزیر اعلیٰ محمود خان کیلئے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ ماضی میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں صوبائی حکومت کے حمایت یاقتہ امیدواران ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
اگرچہ نوشہرہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو کسی نہ کسی صورت میں عوامی ہمدردیاں حاصل ہیں کیونکہ میاں جمشید الدین کی ناگہانی موت سے حلقہ کے عوام ان کے بیٹے کو ہمدردی کا ووٹ دے سکتے ہیں تاہم ضلع کرم کی نشست پر تحریک انصاف کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔