آج جس وقت میں اپنا یہ ہفتہ وار کالم تحریر کررہا ہوں ، عالمی سپر پاور امریکہ نومنتخب صدر جوبائیڈن کی حلف برداری تقریب کے ساتھ ایک نئے جمہوری دور میں کامیابی سے داخل ہورہا ہے۔ اس خوشی کے موقع پر میں پاکستان کے عوام کی جانب سے جو بائیڈن کو46ویں امریکی صدر منتخب ہونے پردِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک تمنائوں کا اظہار کرتا ہوں۔پر امن انتقال اقتدار کی تقریب جمہوری ممالک کیلئے نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے لیکن جمہوریت کے چیمپئن امریکہ میں اس بار روایات سے ہٹ کر منفرد انداز میں قدیم اور جدید روایات کا سنگم نظر آیا۔ امریکی رواج کے عین برعکس لاکھوں لوگ جوماضی میں نومنتخب صدر کا خیرمقدم کرتے تھے، انہیں کورونا وباء کی شدت کے پیش نظر تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان کی نمائندگی کرنے کیلئے بے شمار امریکی پرچم لہرائے گئے،ماضی کی طرح میوزک بینڈز خوشیوں کی دھن نہیں بکھیر سکے بلکہ فنکاروں کو آن لائن ورچوئیل انداز میںپرفارم کرنے کی نئی روایت قائم کی گئی، لوگوں سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر اور سوشل میڈیا پر اس یادگار تقریب کو دیکھیں۔میں حالیہ امریکی صدارتی الیکشن کو ایک اور لحاظ سے منفرد قرار دیتا ہوں کہ امریکہ کی جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن نتائج کے بعد بدمزگی ہوئی، سابقہ صدر ٹرمپ نے نہ صرف الیکشن نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ ان کے حامیوں نے امریکی ریاست کے سیاسی مرکز کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول کر جو ہنگامہ آرائی کی، اس سے عالمی سطح پر امریکہ کے مثبت جمہوری امیج پر دھبہ لگا، اسی طرح عالمی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت سوشل میڈیا اداروں کے سامنے بے بس نظر آیااور سوشل میڈیا پر اس کے اکاؤنٹس خدشہ نقص امن کی بناء پر بلاک کردئیے گئے۔آج ٹرمپ قصہ ماضی بن چکے ہیں اوردنیا کی نظریں اب نئے امریکی صدرپر مرکوز ہوچکی ہیں کہ وہ اپنے دور حکومت میں کیسی پالیسیاں بناتے ہیں، میں جوبائیڈن کے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اپنے تبصرے میں واضح کرچکا ہوں کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی سے ریاستی پالیسیاں بدلا نہیں کرتیں بلکہ امریکہ کے قومی مفادات کا حصول دوست اور دشمن کا تعین کرتا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ نومنتخب امریکی صدرعوامی دباؤ کے پیش نظر ٹرمپ انتظامیہ کی کچھ قابلِ تنقید پالیسیوں پر فوری طور پر نظرثانی کریں گے، مثلاََجوبائیڈن ترجیحی بنیادوں پر ان عالمی معاہدوں بشمول پیرس معاہدہ، ڈبلیو ایچ او میں شمولیت، ایران جوہری معاہدہ وغیرہ، میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کریں گے جن سے ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور کے دوران امریکہ کو الگ کردیا تھا، میرےخیال میں جوبائیڈن کا ’’امریکہ اِز بیک‘‘کا نعرہ واضح کرتا ہے کہ وہ امریکہ کی سوفٹ پاورکی واپسی کے خواہاں ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے خدمات، سائنسی میدان میں ایجادات، خلائی محاذ پر کامیابیاں، میڈیکل کے شعبے میں نمایاں کارنامے، ہالی وُڈ کی مسحور کن فلمی تخلیقات اور امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیرملکی طلباء و طالبات کے داخلوں نے امریکہ کو ناقابل تسخیر عالمی طاقت کا درجہ عطا کیا ہے۔بلاشبہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات ماضی میں نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، تاہم تاریخی طور پر پاکستان کیلئے ریپبلکن امریکی صدور بشمول رچرڈ نکسن، رونلڈ ریگن،بش سینئر، جارج ڈبلیو بش اورڈونلڈ ٹرمپ کا دور اقتدارنیک شگون ثابت ہوا ہے، ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر اوباما کے دور حکومت میں پاکستان امریکہ دو طرفہ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے بلکہ ایبٹ آباد آپریشن عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی کا باعث بھی بنا، تاہم میری معلومات کے مطابق نومنتخب ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن پاکستان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں،وہ عالمی امن اور علاقائی استحکام یقینی بنانے کیلئے پاکستان کی جیو اسٹریٹیجک اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں،وہ ماضی کے سربراہان کے برعکس صدر بننے سے پہلے ہی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں، انہوں نے 2008 ء میں سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کیلئے کئی ارب بلین امریکی ڈالر کی امداد مختص کرائی تھی، انہیں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے نمایاں خدمات کے اعتراف میںپاکستان کے دوسرے سب سے بڑے سول اعزاز’’ہلال پاکستان‘‘سے بھی نوازا گیا تھا،حال ہی میں انہوں نے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی ٹیم میں پاکستانی نژاد شہریوں اور کشمیری خواتین کو بھی شامل کیا ہے۔ بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ نئے امریکی صدر جو بائڈن کا بیٹا بو بائڈن کینسر جیسے جان لیوا مرض کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیاتو انہوں نے کینسر کا سدباب کرنے کیلئے اوباما دورحکومت میں بطور نائب صدر سرتوڑ کوششیں کیں، انسانیت کی خدمت کرنے کی یہ قدرِ مشترک انہیں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان سے قریب کرتی ہے جنہوں نے اپنی والدہ کو کینسر کے ہاتھوں کھونے کے بعد شوکت خانم میموریل اسپتال جیسے عظیم الشان منصوبے کو کامیابی سے مکمل کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جوبائیڈن اپنی ذاتی حیثیت میںانسانیت کا درد رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں ، ان کی عظیم شخصیت کی بناء پر امریکی باشندے یہ امید کر رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں لوگوں کی سماجی اور معاشی حالت میں بہتری آئے گی اور امریکہ ایک مرتبہ پھر اپنا کھویا ہوا عالمی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائےگا، جوبائیڈن کے سامنے ایک بڑا چیلنج اندرونی طور پر امریکہ کو متحد رکھنا بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قریبی رشتہ داروںسے بچھڑنے کا دُکھ جھیلنے والے جوبائیڈن جنگوں کے نتیجے میں متاثرہ معصوم انسانوں کا دُکھ سمجھیں گے اور عالمی تنازعات کے پرامن حل کیلئے اپنا قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ امیدہے کہ جو با ئیڈن کے دور حکومت میں نہ صرف پاک امریکہ تعلقات مزید مضبوط ہونگے بلکہ دونوں روایتی اتحادی ممالک قریبی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)