فوزیہ حنیف
مہذب قومیں اپنی زبان کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنی زبان کو فروغ دینے کی کوشش میں ناکام رہے ہیں۔ اگر ہم ایک صدی پہلے فرانس کے پرائمری اسکولوں کا معیار دیکھیں تو حیرانی ہو گی کہ ان کا معیار تعلیم انتہائی ناقص تھا،مگر ان کے زیرک حکمرانوں اور ماہر تعلیم نےمعیارِ تعلیم بہتر کرنے کی سعی کی ، ماہر تعلیم پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دیں، ماہر نفسیات اور اساتذہ نے مل کر پالیسی سازوں کے مشوروں سے اپنے تعلیمی نصاب کو نہ صرف بہتر بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کیا۔ آج اُس قوم کی ترقی کا سہرا دور اندیش ماہرین تعلیم کے سر ہے۔انہوں نے پرائمری کی سطح سے تعلیمی معیار بہتر کرنے کی کوشش کی پھر وہ مثبت تبدیلی جامعات تک جا پہنچی۔
اس کے بر عکس نہ ہم نے اپنی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی اور نہ ہی نظام تعلیم بہتر بنانے کی سعی کی۔ ہمارا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگ اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے مغرب کی پیروی کرتے ہیں، لیکن ہم نےاس کی اندھی تقلید میں اپنی زبان کو ہی نظر انداز کردیا۔ چوں کہ ہمارا تعلق بھی در س وتدریس کے شعبے سے ہے اس لیے ، انگریزی زبان کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں مگر یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی زبان کو نظر انداز کرکے کسی طور ترقی نہیں کی جاسکتی۔
ہماری زبان میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ ، نسل نو ہندی اور اُردو کے چند الفاظ میں تمیز ہی نہیں کر پاتی ۔قومی زبان کو فروغ دینے کے لیے ایوانوں میں بھی کئی قراردادیں پیش کی گئیں ، حکمت عملی تیار کی گئی لیکن ساری کو ششیںبے سود ثابت ہوئیں، نتیجہ نوجوانوں کا اُردو زبا ن سے دوری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔بہ حیثیت معلم جو کمزوریاں ہم اُردو کے نصاب میں محسوس کرتے ہیں ان کا ذکرذیل میں کرر ہے اور تجاویز بھی دے رہے ہیں ہو سکتا ہے ہماری تجاویزاُردو کے نصاب کے معیار کوبہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔
اُردو زبان کانصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، آٹھویں کی کتاب میں ’’کمپیوٹر کا سبق مانیٹر، کی بورڈ‘‘ بس اتنی معلومات تک ہی محدود ہے جب کہ، آج کل بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس کو کیسے آپریٹ کرتے ہیں ۔اس کے بجائےسائنس ، آئی ٹی کے شعبوں میں ہونے والی ایجادات کے حوالے سے اسباق شامل کیے جانے چاہییں۔آج بھی ہم بچوں کو اُرد و کی درسی کتابوں میںبرسوں پرانانصاب پڑھا رہے ہیں، ہمارے خیال میںنصاب میںہر سال چند نئے اسباق شامل کیے جانے چاہییں،تا کہ طالب علم جدید دنیا سے منسلک رہیں ۔
اُردو زبان میں آئی ٹی کی بھی ترویج ممکن بنائی جائے خاص کر اُردو ٹائپنگ، پیپرز فارمیٹنگ اور چیدہ چیدہ معلومات ،اُردو کے ہر استاد کودی جائیں۔اُردو کے نصاب میں ایسےاسباق شامل کیے جائیں جنہیں پڑھنے میں طالب علم بھی دل چسپی لیں۔ادب میں ایسی سرگرمیاں ڈالی جائیں جن سے طالب علموں میں شعر و شاعری اور اُردو ادب سے آگاہی پیدا ہو۔ اگر وقتی تقاضوں کے مطابق اب بھی نصاب ِاُردو کو تبدیل نہ کیا گیا تو طالب علم اُردو ادب کو بھول جائیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ آسان پیرائے میں طلبہ کو ادب سے شناسائی کرائی جائے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ نصاب میں تبدیلی کرنے سے پہلے ماہر تعلیم سے ضرور مشاورت کی جانی چاہیےاورکسی بھی مضمون میں نصابی تبدیلیوں کی خبر اساتذہ کو ضرور دینے کے ساتھ،ورک شاپز وغیرہ کے ذریعہ ان کی تربیت کی جانی چاہیے تاکہ وہ تبدیلیوں سے بہرہ ور ہوکر طالب علموں کو اطمینان اور اعتماد کے ساتھ پڑھا سکیں اور خود بھی جدیدمعلومات سے لطف اندوز ہوں۔