• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی کشیدگی اپنی جگہ: مہنگائی کا جن تو کنٹرول ہونا چاہئے

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم اور عمران حکومت کے درمیان سیاسی دنگل اور کشمکش جاری ہے۔ عوام بد حال اور پریشان ہیں۔ مہنگائی نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے۔ لوگوں میں زندہ رہنے کی سکت نہیں رہی۔ ٹاک شوز اور میڈیا میں ایک ہی طرح کے تبصرے ہورہے ہیں۔ حکومت کے وزراء اور ترجمان کے قائدین حکومت کے جانے کے دعوے کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم وا لوں نے ابتدا میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت دسمبر نہیں دیکھے گی پھر یہ دعویٰ جنوری اور فروری تک چلا گیا۔ 

اب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مارچ میں لانگ مارچ ہوگا۔ پہلے یہ دعویٰ کیا گیا تھا اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں گے اور سارے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے استعفیٰ جمع کرادیئے ہیں اور ہم نہ سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینگے اور نہ ہی ضمنی انتخابات میں حصہ لینگے مگر پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سے ان فیصلوں کے حوالے کھلم کھلا اختلاف کیا اور کہا کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے مستعفی بھی نہیں ہوگی ور سینٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی۔ 

چنانچہ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کو بلاول بھٹو کے اس واضح اعلان کے ریورس گیئر لگانا پڑا اور بلاول بھٹو کی تجویز پر اتفاق کرتےہوئے ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ پی ڈی ایم کی قیادت کی گو مگو پالیسی سے عوام میں مایوسی پھیل گئی اور ان کا جوش و خروش مدھم پڑ گیا اور انہوں نے پی ڈی ایم کے جلسوں میں کوئی زیادہ دلچسپی ہیں دکھائی ور پی ڈی ایم کا ہر جلسہ پہلے جلسے سے تعداد کے حوالے سے کم تھا جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی کراچی کے سوا ان جلسوں میں زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کیونکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا خیال ہے ان جلسوں سے حکومت تبدیل نہیں ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ 

پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کو نقصان پہنچائے بغیر عمران حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹانے کی پر زور حامی ہے جبکہ مسلم لیگ نے عدم اعتماد کی تحریک کو دھوکہ قرار دیدیا اور کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک سے جعلی ووٹوں سے بننے والی اسمبلی کو درست قرار دیدیا جائے گا صرف عوامی مارچ سے ہی حکومت کو ہٹانا اور انتخابات کی راہ ہموار کرنا ممکن ہے۔ مارچ میں مارچ ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اور جمہوری طریقے سے حکومت کو تبدیل کیا جائے۔ 

مگر مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بلاول ھٹو زرداری کی تجویز کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن پی ڈی ایم میں بھی بلاول بھٹو کی تجویز کی مخالفت کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا میاں نواز شریف بھی تحریک اعتماد لانے کے مخالف ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا خیال ہے کہ سینٹ میں ماضی میں ہونےوالے عدم اعتماد کا تلخ تجربہ ہوا ہے۔ 

اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکامہوگئی تو پی ڈی ایم کی تحریک بھی ٹائیں ٹائیںفش ہو جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری بہت دور اندیش سیاستدان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ یا کسی قسم کی گڑ بڑ سے ملک میں مارشل لاء لگ گیا تو خدانخواستہ ان کی زندگیوں میں جمہوریت بحال نہیں ہوسکےگی۔ 

عوام قربانیاں دینے کیلئے تیار نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے باوجود عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نہیں آئے۔ یہ بات لاہور اور اسلام آباد کے جلسوں سے عیاں ہے یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد اور دیگر کئی جلسوں میں شریک نہ ہوئے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں کم تعداد کی وجہ سے عمران حکومت کو تقویت ملی ہے لانگ مارچ میں بھی بھاری تعداد میں عوام کی شرتک کا امکان نہیں۔ دوسری طرف براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس سکینڈلوں میں اپوزیشن جماعتوں کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے جلسے میں لوگوں کی تعداد سے پی ڈی ایم کی سبکی ہوئی۔ 

بلاول بھٹو زرداری ایکبار پھر الیکشن کمیشن کے سامنے جلسے میں شرتک نہ کر کے اپنا دامن اور عزت بچا گئے ایسا لگتا ہے فارن فنڈنگ کیس میں بھی وزیراعظم عمران خان اپنی پارٹی کو بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کو ذرا بھی شک ہوتا وہ فارنگ فنڈگ کیس کی اوپن تحقیقات کا اعلان نہ کرتے۔ فارن فنڈنگ کیس تو پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی ملتوی رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں وہ اپنا دفاع کیسے کریں گی۔ براڈشیٹ کیس بھی مسلم لیگ ن والوں کیلئے بڑا امتحان ہوگا۔ 

حکومت نے جسٹس ریٹائر عظمت شیخ صاحب کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا ہے۔ عظمت شیخ صاحب اچھے جج رہے ہیں مگر اپوزیشن نے ان کا نام مسترد کردیا ہے۔ کیا حکومت اپنے فیصلے پر ڈٹی رہے گی۔ بہر حال صورتحال کنفیوژن کا شکار ہے کیا اپوزیشن تاخیری حربے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن والوں کادامن صاف ہے تو پھر نہیں کس بات کا ڈر ہے۔ 

پی ڈی ایم اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود حکومت کیخلاف نتائج حاصل نہیں کرسکی جس کی انہیں توقع تھی درحقیقت میاں نواز شریف نے تحریک کے ابتداء میں ہی فوج بالخصوص جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف جو تقریر کی اور ان کے اس بیانیے کو بھارتی میڈیا میں زبردست پذیرائی ملی جس کی وجہ سے عوام بددل ہوگئے کیونکہ پنجاب اور د یگر صوبوں کی اکثریت فوج سے محبت کرتی ہے اس کی وجہ فوج کی دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں ان کی لازوال قربانیاں ہیں۔ 

پی ڈی ای کے پہلے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کی تعداد بتدریج کم ہونے لگی۔ حالانکہ عوام مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت سے بھی بہت تنگ ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن سیاسی محاذ پر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی کشیدگی اپنی جگہ لیکن حکومت مہنگائی کا جن تو بوتل میں بند کرے۔

تازہ ترین
تازہ ترین