• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُردو کے طرحدار مزاح نگار مرزا فرحت الله بیگ نے ذہن کو گدگداتا ہوا ایک مضمون لکھا تھا ”مجھے میرے دوستوں سے بچاوٴ“۔ جناب نواز شریف جن کی حسِ مزاح آجکل بڑی تروتازہ ہے  ایک ہی فقرے کا ورد کر رہے ہوں گے کہ ”مجھے بن مانگے مشوروں سے بچاوٴ“۔ مشورے سن سن اور پڑھ پڑھ کر اُنہیں اُبکائی آنے لگی ہو گی اور اُن کے مزاج میں ایک نوع کا چڑچڑاپن بھی پیدا ہو چکا ہوگا۔ اب تو کیفیت یہ ہو چلی ہے کہ جو صاحب مبارک باد دینے جاتے ہیں  وہ اپنی جیب سے دو چار مشوروں پر مشتمل ایک چٹ بھی پیش کر دیتے ہیں اور اصل بات کان میں کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میاں صاحب چونکہ طبعاً بڑے خلیق اور بامروت واقع ہوئے ہیں  اِ س لیے اپنے چہرے سے بیزاری کے تاثرات ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ عملاً اُنہیں مشوروں کی کیا ضرورت ہے۔
جس شخص نے دو بار ملکی اقتدار سنبھالا ہو اقتدار سے محروم ہونے کے اذیت ناک لمحات سے بھی گزرا ہو اور اُسے طویل جلا وطنی کے دوران ماضی کا جائزہ لینے اور مختلف ممالک میں حکمرانی کے اسالیب دیکھنے کے بہت سارے مواقع ملے ہوں  اِس سے زیادہ زیرک  تجربے کار اور پاور میکانزم کا ماہر اور کون ہو سکتا ہے۔ اُنہیں خوب اندازہ ہے کہ اُن کی ذاتی جبلتوں سے کس کس نے فائدہ اُٹھایا اور کس کس نے چکنی چپڑی باتیں کر کے اُنہیں غلط راستوں پر ڈالا اور اُن کے کان بھر کر اُنہیں اپنے حقیقی دوستوں سے متنفر کیا۔ اب اُنہیں پورا پورا احساس ہو چکا ہے کہ حکومت چلانے کے لیے گہرائی  دانائی اور اجتماعی ذمے داری اور ایک ایک قدم پر کفایت شعاری اور خدا خوفی کی ضرورت ہے۔
جناب نواز شریف کے بعض بیانات میں بھارت کے ساتھ یک طرفہ محبت جوش مار رہی ہے جو اُن کے مزاج میں شتابی کی آئینہ دار ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین تعلقات سے یقینی طور پر پاکستان اور جنوبی ایشیا کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے  مگر اِس کے لیے دوسری طرف سے بھی چاہت کااظہار ضروری ہے۔ میاں صاحب نے فرطِ محبت میں بھارتی وزیر اعظم کو تقریب ِ حلف وفاداری میں دعوت دے ڈالی جو عوامی حلقوں میں اضطراب پیدا کرنے کا باعث بنی  مگر اُدھر سے بھی یک طرفہ بے نیازی کا پیغام آگیا جس نے پاکستان کے وقار میں اضافہ نہیں کیا اور ہم جناب طارق فاطمی اور جناب ریاض کھوکھر کی موجودگی میں لب کشائی بھی نہیں کر سکتے۔
میں سات روز سے دیکھ رہا ہوں کہ رائیونڈ اور ماڈل ٹاوٴن میں جناب نواز شریف کی صدارت میں اہم اجلاس جاری ہیں اور بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن میں پروفیشنل بھی شامل ہیں اور بھارت کے صنعت کاربھی نظر آئے  مگر ابھی تک وہ سیاسی اور بیوروکریٹک ٹیم سامنے نہیں لائی جا رہی جسے بہت کڑے امتحان سے گزرنا ہے۔ میں چونکہ بنیادی طور پر صحافی ہوں  اِس لیے مشورہ دینے سے باز نہیں رہ سکتا  یہ جانتے ہوئے بھی کہ بن مانگے مشورے کی ذرہ برابر قدروقیمت نہیں ہوتی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ میاں صاحب پورے اعتماد کے ساتھ اپنی ٹیم قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے اُسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کی سہولتیں فراہم کریں۔ عوام کو اب تک معلوم ہو جانا چاہیے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ذمے داری کسے سونپی گئی ہے اور امنِ عامہ کے قیام کے کون صاحب ذمے دار ہوں گے کہ اِس وقت ہمیں انہی دو چیلنجز کا مقابلہ ہے۔ کسی تاخیر کے بغیر تمام وزیروں کا انتخاب کر لینا چاہیے تاکہ وہ اپنے ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔ میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ جناب وزیر اعظم کو پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو پرائم منسٹر آفس میں تبدیل کر کے بہت بڑی تبدیلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اِس طرح اخراجات میں قابلِ ذکر کمی آئے گی اور بیوروکریٹس کی ایک فوج ظفر موج کو دوسرے اہم کاموں کی ذمے داری سونپی جا سکے گی۔ اب تو یہ ہو رہا ہے کہ پہلے وزارت میں سیکرٹری کی سطح پر سمریاں تیار ہوتی ہیں اور اِنہی سمریوں کا جائزہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے ڈپٹی سیکرٹری لیتے ہوئے روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔ میاں صاحب کی طبع نازک پر اگر یہ بات ناگوار نہ گزرے تو میں اپنی پرانی تجویز کو دہرانا پسند کروں گاکہ جناب وزیر اعظم کو کیبنٹ ڈویژن سے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے چاہئیں جیسا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں ادا کرتے تھے۔
ہمیں اب مشوروں کے آسیب زدہ ماحول سے باہر نکل آنا چاہیے  ایسا نہ ہو کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھربن جائیں یا بہت آگے بڑھنے والے فائر کی زد میںآ جائیں۔
اِس امر کا قوی امکان ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد مغربی ممالک پاکستان پر یوٹیوب سے پابندی ہٹانے پر اصرار کریں گے اور آزادیٴ اظہار کی دہائی دیں گے  مگر پاکستان کو یہ مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے کہMutual Legal Assistance Treaty (میوچل لیگل اسسٹنس ٹریٹی)پر دستخط ہونے اور بلو کیچ کا ایک قابلِ اعتماد سسٹم قائم ہونے سے پہلے اِس پر سے پابندی نہیں ہٹائی جا سکتی  کیونکہ یو ٹیوب پر حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی فلم دکھائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسلام آباد اور دوسرے مضافات میں خونریز فسادات ہوئے تھے اور سپریم کورٹ کو پابندی عائد کرنے کا حکم صادر کرنا پڑا تھا  کیونکہ اسلام دشمن طاقتیں وہی گستاخ فلم بار بار لوڈ کر کے مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا رہی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے حکمران جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور پابندی قائم رکھیں گے۔
میں جناب عمران خاں کی صحت یابی پر اُنہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ وہ جمہوریت کی فتح کو ہنگاموں کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔
تازہ ترین