پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں جمہوری کلچر کے ارتقائی عمل کو دانستہ طاغوتی طاقتوں نے روکے رکھا۔ عصر حاضر میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ رائے عامہ عملی ثمر سے بے بہرہ رکھی گئی اور عوام کو یہ علم نہیں کہ عالمی تناظرمیں انہوں نے کس طرف جانا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی جن طبقات کو حق حکمرانی برطانوی سامراج نے سونپا اور چل دیئے وہ انگریزوں ہی کے سدھائے اور پڑھائے ہوئے تھے۔ یہ بھی مشاہدہ کیجئے۔ اس خطے میں جسے ہم آج پاکستان کے نام سے منسوب کرتے ہیں اس میں انگریزوں کی آمد سے پہلے جاگیرداری نظام نہیں تھا۔ بادشاہی نظام میں درباری ہوتے تھے جن کی آج نئی شکل بیوروکریسی ہے۔ ان کے حوالے ہندوستان کے مختلف علاقوں کا انتظام وانصرام تھا جو شاہی خزانے میں لوگوں سے محصول اکٹھا کرکے بادشاہوں کی عیاشیوں کا سامان مہیا کرتے تھے۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو منڈیوں کو قبضے میں رکھنے کے ساتھ کرنسیوں اور اسلحے کے ذخیرے بھی لے کر آئے۔ یہاں زمین ہموار کرنے کے لئے پہلے ہی عصبیتوں کا زہر پھیلا دیا تھا۔ برطانوی سامراج نے اس تضاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلحہ اور ”زر“ کو قرضوں کی شکل میں جھولی پھیلانے والوں کو سرمائے کی منڈی میں اپنا غلام بنادیا۔ دوسری جانب صنعتی انقلاب کی طاقت نے تجارت کو لوٹ مار کے کلچر میں تبدیل کردیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی وہ غلام جو قطار اندر قطار بکنے کو تیار تھے، خرید لیا جس طرح پاکستانی تاریخ میں امریکی ڈالروں کی عاشقی میں رسوا ہو کر حکمران بکتے رہے اور خریدے گئے ۔ اس غلامی کی ابتدا انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہوگئی تھی چنانچہ مسلمان اور ہندو اشرافیہ نے عام لوگوں میں مصیبتوں کا زہر جو معاشرے میں زیریں لہروں کی صورت میں موجود تھا اسے اوپری سطح پر نمایاں کرکے خون ریزی کو ہوا دی۔ یوں برطانوی سامراج نے ”تقسیم کرو اور لڑاؤ“ کی پالیسی کو دست سوال پھیلانے والوں کی مٹھیاں گرم کرکے کامیابی سے جاری رکھا۔گو کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے دانشمندوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی اور جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے لیکن برطانوی اجارہ داروں نے مقامی وکیلوں کے ایسے گرویدہ پیدا کر لئے جو برطانوی سامراج کے مددگار بن گئے۔ جن طبقات نے1857ء آزادی کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دیا ان کو جاگیروں سے نوازا گیا اس طرح ہندوستان میں جاگیرداری کی داغ بیل پڑی۔ مختصراً یہ کہ 20ویں صدی میں دو عالمی جنگیں سرمایہ دار ملکوں کے مابین منڈیوں پر قبضے کے لئے لڑی گئیں ان کے مابین بھی تضادات پیدا ہوئے بعد میں سابق سوویت یونین اور چین میں جب سوشلسٹ رنگ لئے انقلابات برپا ہوئے تو سرمایہ دار ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے ایک ہوگئے تاکہ وہ ان انقلابات کو ایشیاء اور مغرب کے دوسرے ممالک میں داخل نہ ہونے دیں۔ جس کے لئے انہوں نے محنت کشوں کو سوشل سیکورٹی کے نام پر مراعات بھی دیں۔ برطانوی سامراج جو پہلے ہی نازی ہٹلر کے خلاف جنگ میں کمزور ہوچکا تھا وہ مختلف ممالک میں کالونیل نظام کو برقرار نہ رکھ سکا کیونکہ وہ مزاحمتی آزادی کی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا ۔ ایفروایشیائی کئی ممالک آزاد ہوئے تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد نیا سامراج امریکہ ابھر کر آیا۔ نو آزاد ممالک کی اکثریت کو اس نے قرضوں کے عوض مقامی حکمرانوں سے مل کر اقتدار اعلیٰ پر ان دیکھا قبضہ کر لیا۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے مغرب کو اسلحہ اور تیل برآمد کرکے اور اپنے مالیہ اور مشینوں کو نو آزاد ممالک کے خام مال کے بدلے قرضوں کے عوض برآمد کرنا شروع کردیا تاکہ نو آزاد ممالک اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوسکیں۔ پاکستان میں جن کے پاس اقتدار آیا انہوں نے امریکہ کی کاسہ لیسی اور غلامی ڈالروں کے عوض قبول کرکے سوشلسٹ بلاک کے خلاف سینٹو، سیٹو ، بغداد پیکٹ اور کامن ویلتھ میں شمولیت اختیار کی۔ چنانچہ پاکستان فلاحی ریاست کے بجائے سیکورٹی ریاست بنادی گئی۔ اس رویّے اور کشمیر کے مسئلے پر پہلی جدوجہد پاکستان کے بائیں بازو کے رہنماؤں ، کارکنوں اور ٹریڈ یونینز نے کی۔ لیکن 1951ء میں نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں بہت سے قوم پرست اعلیٰ فوجیوں اور کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں سجاد ظہیر ، فیض احمد فیض اور محمد حسین عطا گرفتارکو کر لیا اور کمیونسٹ پارٹی پر امریکہ کی ایما پر پابندی عائد کردی۔ بعدازاں تمام ترقی پسند تنظیموں، ادیبوں ،شاعروں ، مصوروں ، صحافیوں اور دانشوروں پر زندگی حرام کردی۔ امریکی نواز حکومت کے لئے یہ بہانہ اچھا تھا چنانچہ ملٹری ملّا گٹھ جوڑ اور جاگیرداروں نے پاکستان کو تاریکی کی ایسی روش پر ڈال دیا جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ فوجی آمروں اور عدالتوں نے صرف غریبوں کی حمایت پر بھٹو خاندان کو صفحہٴ ہستی سے مٹا دیا بلکہ بائیں بازو کی تحریک کو دبانے کے تمام حربے استعمال کئے۔ بائیں بازو کے کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے گئے۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے نوجوانوں کو بڑی بے رحمی سے شہید کردیا گیا۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے افغان جنگ کی آڑ میں پاکستانی معاشرے کے تارپود منتشر کرکے رکھ دیئے اور دونوں مرد آہن امریکہ کے سامنے مرد موم بن گئے۔ بائیں بازو پر جو بار کہسار غم جو لادتے گئے انہیں کسی ایک کالم میں رقم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے عمران خان کے ساتھی نوجوانوں کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان کے ساتھ نہ تو چیمبر آف کامرس ہیں نہ تو بڑے صنعتی و تجارتی حلقے ہیں اور نہ ہی بڑی بڑی برادریاں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس چمک ہے۔ وہ اپنا اسپتال، یونیورسٹی وغیرہ چندوں اور زکوٰة کے ذریعے چلاتے ہیں۔ اسی لئے الیکشن کمیشن کی بے ضابطگیوں کے نتیجے میں 15 سے 20 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر زبردست دھاندلی ہوئی۔ لیکن نوجوانوں کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ان کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے اگر آج ان کا نہیں تو کل ان کا ہے لیکن اس تبدیلی کے لئے عمران خان کو اپنے ساتھ محنت کشوں ، بائیں بازو کے دانشوروں ، ریڑھی والوں ، ریل بانوں، ٹیکسی ، رکشہ چلانے والوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا حقیقی تبدیلی ان کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ”اسٹیٹس کو“ کے حامیوں کے ساتھ حکومت بنانا نہایت خطرناک عمل ہے اور یہی غلطی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کی تھی۔ پارٹی کیڈر کو سامراج کو سمجھنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کی طرح امریکہ مخالف ہونا ابہام ہے اصل میں پوری دنیا کے غریبوں کو سامراج نے گہری مایوسیوں اور محرومیوں کی کھائی میں دھکیل دیا ہے اس لئے سامراج کے عالمی استحصال کو عالمی سرمایہ داری کے حوالے سے سمجھنا ہوگا۔ یہ سیاسی شعور حاصل کرنے سے ہی ہوگا۔یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان کے ساتھ نوجوانوں کا سیل رواں ہے اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ خاک بسر غریب عوام کے حقوق کی بات بھی کریں گے کیونکہ انتخابی تبدیلی کو بھی انقلابی تبدیلی سے بدلنا ہے تاکہ کوئی امیدوار کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے پارلیمینٹ میں نہ آسکے۔ پاکستان کے اہل بست و کشاد اور اقتدار کو سمجھنا ہوگا کہ اگر تعلیم ، صحت اور روزگار کو اولین ترجیح نہ دی گئی تو یہ 60فیصد نوجوان جن کا مستقبل سامراج کے خزانوں میں قید ہے وہ ایٹم بم بھی بن سکتے ہیں۔ فیض نے یہ پیغام نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو دے دیا تھا ”چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“ ابھی تو داغ داغ اجالا ہے۔