مولانا فضل الرحمٰن کے اس موقف کے بعد کہ اسسٹیبلشمنٹ نہیں، حکومت کے خلاف ہیں، سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے فوج پر (ن) لیگ حکومت کو ’رخصت‘ کرانے اور عمران خان کی حکومت کے لئے ’جوڑ توڑ‘ کرنے کے الزامات سے ہوا نکل گئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی جرنیلوں کے نام لے کر الزام تراشی کرنے کی نفی کر چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ کہنا ہے کہ اداروں سے لڑائی نہیں گلے شکوے ہیں، کاش اِن سیاسی جما عتوں کے قائدین کو اُس وقت عقل آتی جب وہ سلیکٹرز کے ذریعے اقتدار میں آ رہے تھے۔
پاکستان کے سیاسی پس منظر کے حوالے سے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ لکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ یوں تو قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت سے پہلے ہی اسسٹیبلشمنٹ حکومتی معاملات میں شریک ہو گئی تھی اور تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں 1951سے 1958تک 6شخصیتیں وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں مگر بدقسمتی سے کوئی بھی پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالت کو سنبھالا دینے میں کامیاب نہ ہو سکا، 7اکتوبر 1958کو صدر سکندر مرزا نے پارلیمانی نظام حکومت کو ختم کرکے صدارتی نظام حکومت کی بنیاد رکھی، جس کے نتیجے میں 27اکتوبر 1958کو آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان صدر بن گئے۔
صدر ایوب خان کا اقتدار بھی مارشل لا کے نفاذ پر ختم ہوا اور جنرل محمد یحیٰ خان نے انہیں فارغ کرکے اقتدار سنبھال لیا۔ پارلیمانی نظام حکومت کے احیا کے لیے انتخابات کرائے مگر بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے عوامی منڈیٹ استعمال کرتے ہوئے مغربی پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، جس پر علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشن کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرکے مشرقی پاکستان میں دوبارہ انتخابات کرائے گئے مگر بھارتی فوج کی سرپرستی میں عوامی لیگ کے کارکنوں نے پاکستانی فوج کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ ختم کرکے اسے چار صوبوں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں انتظامی طور پر تقسیم کر دیا گیا۔
2018کے انتخابات سے قبل ہی (ن) لیگ کی قیادت کو سخت صورتحال سے گزرنا پڑا نواز شریف بیٹی سمیت گرفتارہو کر اڈیالہ جیل گئے اسی دوران نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز دنیا سے کوچ کر گئیں، جنہیں لندن سے لاہور لاکر ان کے آبائی قبر ستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، بیٹوں نے ماں کی میت تو بھیج دی مگر خود دیار غیر میں بیٹھ کر ہی آنسو بہانے پر مجبور ہوئے، نواز شریف کو احتساب عدالت کے ایک دوسرے ریفرنس میں بھی سزا سنائی گئی تو وہ کوٹ لکھپت جیل میں بھی اسیر کی حیثیت سے موجود رہے، پہلی سزا میں تو اسلام آبادہائی کورٹ نے باپ بیٹی کو ضمانت دے دی مگر دوسری سزا میں صرف دو ماہ کی ضمانت ملی جس میں علاج تو نہ ہو سکا مگر صحت اتنی خراب ہوگئی کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی نواز شریف باہر بھیجنے کی ہدایت کرنا پڑی، نواز شریف حکومتی انتظامات کے تحت 19نومبر 2019کو علاج کی غرض سے لندن گئے تھے۔
مگر ابھی تک وہیں مقیم ہیں اور (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ وہ مکمل علاج کروا کر ہی واپس لوٹیں گئے، 18 اگست 2018 کو بننے والی عمران خان کی حکومت کے سوا دو سال بعد 24 اکتوبر 2020 کو پاکستان کی گیا رہ جماعتوں (ن) لیگ، پی پی پی، بلو چستان نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما پاکستان، مرکزی جمعیت اہل حدیث، پختو نخواہ ملی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ نے حکومت کے خلاف مشترکہ جدو جہد کا اعلان کیا ملک بھر میں جلسے جلوس اور مظاہرے کر کے قوم کو متحرک کرنے کی کوشش کی اور 31 جنوری 2021 تک وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ دے کر نئے نظام کے لیے گرینڈ مشاورت شروع کرنے کا مطالبہ کیا جو وزیر اعظم نے نہیں مانابلکہ اپوزیشن عقل کے اندھے قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کو نہ صرف عوام کا منڈیٹ حاصل بلکہ مقتدر حلقے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جمعرات چار فروری کو وفاقی دارالحکومت اسلا م آباد میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہو گا جس میں حکومت کے خلاف آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، 14دسمبر 2020کو جاتی عمرہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ موجودہ حکومت 31جنوری تک مستعفیٰ ہو وگرنہ ملک بھر سے موجودہ حکمرانوں کے خلاف یکم فروری 2021کو فیصلہ کن لانگ مارچ کا اعلان کر دیا جائے گا جو کہ نہ ہو سکا، حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس جمعرات 4فروری کو وفاقی دارالحکومت میں (ن) لیگ کی میزبانی میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے پبلک سیکر ٹریٹ پارک روڈ پر ہو گا،حکومت نے استعفے کی بجائے (ن) لیگ کے بڑے بڑے لوگوں کے خلاف گریڈ آپریشن شروع کر کے 210 ارب روپے کی اراضی واگزار کروانے کے ساتھ ساتھ (ن) لیگ کے لیڈروں کے بڑے بڑے پلازوں کو منہدم کرکے خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے لیکن آگے چل کر کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔