ہزاریے کی صدی کا سب سے بھیانک پہلو تنہائی، اداسی، تناؤ، اضطراب اور لایعنیت ہے، جس نے انسان کو انزائٹی کا شکار کردیا ہے۔ انزائٹی کو ایک غیر یقینی کیفیت یا کچھ ناخوشگوار واقع ہونے کا ڈر کہا جا سکتا ہے۔ ہم سب مختلف وقتوں میں بے چینی کے تجربے سے گزرتے ہیں، جس سے ہمارا دماغ ہمیں خطرات یا مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتا ہے مگر بعض اوقات بے چینی نہایت شدید یا حد سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس سے ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
انزائٹی ایک نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کا نام ہے، جس سے بڑی عمر کے افراد کے علاوہ نوجوان بھی متاثر ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیفیت میں مبتلا رہنے میں انسان کے اردگرد کا ماحول اور اس کی اپنی ذہنی صلاحیت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ کیفیت عمر کے کسی حصے میں بھی آشکار ہوسکتی ہے۔ امریکا کا یہ حال ہے کہ اس وقت چار کروڑ سے زائد بالغ امریکی پریشانی و اضطراب کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
برمنگھم میں واقع ویمنز ہاسپٹل کے شعبۂ نفسیات کی ڈائریکٹر اور پی ایچ ڈی سندیافتہ کلینکل سائیکالوجسٹ نتالی ڈیٹیلو کا کہنا ہے،’’ اگر ہم انزائٹی کو نفسیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس بارےمیں ہمارے اندازے غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ انزائٹی اس وقت ہوتی ہے، جب اس پر قابو پانے کی صلاحیت کے بارے میں ہم بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کو باور کرنا ہوگاکہ سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے‘‘۔ لائسنس یافتہ سماجی کارکن اسٹیو گروس کا موقف ہے،’’خوف اور پریشانی کی اصل وجہ انسانوں میں پایا جانے والا تعصب ہے، جسے ہم مثبت بنانے کی سعی کر رہے ہیں۔ انسان کی یہ فطرت ثانیہ رہی ہے کہ وہ دھمکی آمیز اور خوفناک معلومات پر زیادہ دھیان دیتا ہے۔
اس رویے پر قابو پانے کی ضرورت ہے، جو زمانہ قدیم سے انسانوں میںاس وقت سے پایا جاتا ہے جب وہ خوراک، پانی اور پناہ کے لیے غاروں میں قیام پذیر تھا اور حملے کا مستقل خطرہ اس کے سر منڈ لاتا رہتا۔ ایسے میں وہ یا تو لڑتا یا راہِ فرار اختیار کرتا تھا۔ یہ قدیم فطرت آج بھی انسانوں میں موجود ہے۔ مثبت سوچ ، امید، اہداف پر مبنی طرز عمل اورخود اعتمادی ہمیں پریشان ہونے کے بجائے برے حالات سے نکلنے کا ہنر سکھاتی ہے‘‘۔
سوچ تبدیل کریں
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی ہی سوچ کا عکس ہوتا ہے۔ مثبت سوچ ہر اندھیرے کے بعد اجالے کی کرن دیتی ہے۔ امید پرست ہر حال میں نیکی و صداقت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس کا چہرہ ہمہ وقت متبسم دکھائی دے گا جبکہ خوش مزاجی اورآداب و تکریم طرزِ حیات ہوتا ہے۔ دوسری جانب منفی سوچ رکھنے والے کو ہر چیز میں برائی نظر آتی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر افراد منفی سوچ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اجالے میں بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔
ہر بات کے تاریک پہلو کے باعث چہرے شکن آلود اور تلملاہٹ و غصے سےبھرے ہوتے ہیں۔ یہی لوگ انزائٹی کا تر نوالا بن جاتے ہیں۔ یہ نکتہ فراموش نہ کریں کہ انفرادی فیصلے ہی آپ کی کام یابی کا تعین کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے ذہن سے سوچتے ہیں وہی رہنما ہوتے ہیں۔ دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے والےپیروکار اور مقلد ہوتے ہیں، اس لیے اپنی سوچ تبدیل کریں اور اچھا سوچیں، اچھا پائیں۔
خوف پر قابو پائیں
جن لوگوں کو دائمی اضطراب کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ، ان میں یہ تباہ کن سوچ بیدار ہوتی ہے کہ وہ بیکار ہیں۔ انھیں خود پر اعتماد نہیں ہوتا، وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے بجائے اس لایعنی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کا کیا ہوگا؟ ماضی کو ضائع کرنے اور مستقبل کا اَن جانا خوف ہر وقت اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ یہ لوگ موڈی اور غیرمستقل مزاج ہوتے ہیں۔ کام تو جوش و خروش سے شروع کرتے ہیں لیکن دو چار دن میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں، پھر سارا ملبہ دوسرے لوگوں اور حالات پر ڈال دیتے ہیں۔
کسی بھی چیز کے خطرے کے بارے میں اضطراب انتہائی مبالغہ آرائی ہے۔ زندگی کی عمارت ہی جب بیماری و حادثےاور طبعی اجل پر قائم ہےتواس سے بڑھ کر خطرہ کیا ہوگا۔ ہرسانس موت سے ہمکنار ہوتی ہے،ہر لمحہ ماضی میں دفن ہوجاتا ہے۔ ایسے میں کسی چیز کے چھن جانے یا ختم ہوجانے کا خوف کیا معنی رکھتا ہے۔ یاد رکھیں ! ہر لمحہ نیا ہوتاہے۔ اپنی اصلاح ہی نقطہ اوّل و آخر ہوتا ہے۔ جس لمحے آپ نے خوف پر قابو پانے کی ٹھانی، وہی گھڑی آپ کے لیےپریشانی و اضطراب سے نجات کی گھڑی ہے۔
مثبت سوچ رکھنے والوں سے دوستی
کہتے ہیں کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر آپ بےچینی محسوس کرتے ہیں تو ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں کیونکہ تنہائی بھی اضطراب کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہر صبح اٹھنے کے بعد اس دن کے کاموں کا شیڈول بنائیں۔ مثبت ذہن سازی میں یہ مشق آپ کے لیے بہترین ہوسکتی ہے۔ بار بار خود کو باور کرائیں کہ مستقل مزاجی سے کام کرتے جانا ہے۔
ہر انسان کا کام اور کام یابی کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنے خلوصِ دل سے کوشش کرتے ہوئے نتائج اللہ پر چھوڑتا ہے۔ مقدر کے سکندر وہی کہلاتے ہیں جو کبھی خود کو مایوسی کے غار میں مقید نہیں کرتے۔ زندگی جدوجہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ مقدر سنوارنے کے لیے صبر و قناعت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی صورت عبادت کا فرض کبھی فراموش نہ کریں۔ جہاں خالق کون و مکان کی عبادت لازم ہے، وہیں انسانوں کے مابین حسن سلوک، تعاون اور خیر کرنا بھی عبادت ہے۔