سینیٹ کے انتخابات قریب آتے ہی بلوچستان میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے ، مارچ 2021 میں بلوچستان کے 12 سینیٹرز ریٹائرڈ ہوجائیں گے جس کے بعد بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان آئندہ 6 سال کے لئے 7 جنرل ، 2 ٹیکنوکریٹ ، 2 خواتین اور اقلیت کی ایک نشست پر سینیٹرز کا انتخاب کریں گے ۔ اس وقت بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست پی بی 20 تین پشین جمعیت علما اسلام کے رکن سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ و رکن بلوچستان اسمبلی سید فضل آغا کی وفات کے باعث خالی ہے ، جس پر 16 فروری کو انتخابات ہورہے ہیں۔
اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ صوبے میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) 24 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ مخلوط صوبائی حکومت میں شامل پاکستان تحریک انصاف کی بلوچستان اسمبلی میں 7 ، عوامی نیشنل پارٹی کی 4 ، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی دو دو ، پاکستان نیشنل پارٹی ، جمہوری وطن پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں بی این پی اور جمعیت علما اسلام کی دس دس اور پشتونخوامیپ کی ایک نشست ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی جو اگرچہ آزاد بینچوں پر ہیں تاہم ان کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ ہیں ، اسی طرح سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ خان زہری جو گزشتہ عام عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے منتخب ہونے والے واحد رکن تھے اور چند ماہ قبل پارٹی قیادت سے اختلافات کے بعد پارٹی سے مستعفی ہوگئے تھے اسمبلی رکن ہیں ۔ سینٹ میں اس وقت بلوچستان سے پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ بلوچستان اسمبلی طرح ایوان بالا میں بھی صوبے کی سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ہے جس کے ارکان کی تعداد 10 ہے جبکہ نیشنل پارٹی ، پشتونخوامیپ کے 4 ، 4، جمعیت علما اسلام کے 2،پاکستان مسلم لیگ(ن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک ایک جبکہ ایک آزاد امیداوار ہیں جبکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل ریٹائرڈ ہونے والے بلوچستان کے 12 سینیٹرز میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، پشتونخوامیپ کے صوبائی صدر عثمان خان کاکڑ ، گل بشریٰ ، بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ ، سرفراز بگٹی، خالد بزنجو اور نصرت شاہین ، نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر میر کبیر محمد شہی ، ڈاکٹر اشوک کمار ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آغا شاہزیب درانی اور آزاد رکن محمد یوسف بادینی شامل ہیں ۔ جس کے بعد ایوان بالا میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد 6 ، نیشنل پارٹی ، پشتونخوامیپ کےدو ، دو جمعیت علما اسلام کا ایک رکن ہوگا ۔ سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق مخلوط صوبائی حکومت میں شامل جماعتیں سینیٹ انتخابات میں بھی ایک پیج پر متحد رہیں تو 12 میں سے 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہیں جبکہ اپوزیشن کے حصے میں 4 نشستیں آسکتی ہیں ۔
بلوچستان اسمبلی میں موجود مختلف جماعتون کی جانب سے اب تک کئی ایک مضبوط امیدوار میدان میں آچکے ہیں تاہم چونکہ ان سطور کے تحریر کیے جانے تک پارٹی ٹکٹوں کے لئے درخواستیں جمع کرانے کا سلسلہ جاری ہے صورتحال ٹکٹیں جمع کرانے کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد واضح ہوگی ۔ تاہم بلوچستان اسمبلی میں موجود جماعتوں کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں جنہوں نے اب تک پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لئے اپنی اپنی جماعتوں کو درخواستیں دیدی ہیں ان میں سب سے زیادہ درخواستیں صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو موصول ہوئی ہیں جن کی تعداد 70 کے قریب ہے ، بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر و وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سینیٹ انتخابات کے لئے پارٹی امیدواروں کے انٹرویو کے لئے تین کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔
پہلی کمیٹی میں صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی،سینیٹر انوار الحق کاکڑ ، صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ، پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات بشریٰ رند ، دوسری کمیٹی میں رکن قومی اسمبلی روبینہ عرفان ، صوبائی وزراء میر عارف جان محمد حسنی، نور محمد دمڑ ، رکن صوبائی اسمبلی سردار مسعود لونی جبکہ تیسری کمیٹی میں رکن قومی اسمبلی سردار اسرار ترین ، صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو ، سینیٹر ثناء جمالی ، رکن صوبائی اسمبلی مہ جبین شیران شامل ہیں ان کمیٹیوں کو سوال نامہ بھی جاری کیا گیا جس کے تحت امیدواروں کے انٹرویو ہوئے جبکہ وزیر اعلیٰ نے بی اے پی کے ارکان اسمبلی کو سینیٹ امیدوارں کےناموں کے حتمی اعلان تک سینیٹ امیدواروں کی تجویز و تائید کے عمل سے روک دیا ہے۔
امیدوارون کے انٹرویوز کے بعد پارٹی کی کور کمیٹی بنائی جائے گی جو کمیٹی کے سفارش کردہ امیدواروں کا جائزہ لینے کے بعد حتمی امیدواروں کا فیصلہ کریگی جبکہ پارٹی کے صدر وزیراعلیٰ جام کمال خان نے پارٹی کے آرگنائزر میر جان محمد جمالی ، جنرل سیکرٹری سینیٹر منظور احمد کاکڑ ، صوبائی وزرا سردار عبدالرحمٰن کھیتران ، مٹھا خان کاکڑ ، ارکان صوبائی اسمبلی دنیش کمار ، بشریٰ رند پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جسے یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ مارچ 2021 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اتحادی جماعتوں سے ملاقات کرکے سینیٹ انتخابات کے معاملات پر تفصیلات لے گی۔
جہاں سب سے زیادہ درخواستیں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدواروں کی جانب سے جمع کرائی گئی ہیں اس لحاظ سے پارٹی ٹکٹ کے لئے سب سے زیادہ مقابلہ بھی بی ائے پی میں متوقع ہے ، بلوچستان سے اس وقت پیپلز پارٹی کا کوئی سینیٹر نہیں اور گزشتہ چند دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کا بھی کوئی سینیٹر ایوان بالا میں نہ ہوگا۔