سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ملک میں ایک طرف سیاست کی گرم بازاری اوردوسری طرف آئینی موشگافیوں کے الجھتے ہوئے سلسلے خاصی ہلچل مچائے ہوئے ہیں ،ابھی مرحلہ توآیا نہیں کہ سیاسی جماعتیں ٹکٹ جاری کریں اور جوڑتوڑ کا آغا زہو ،بلکہ ابھی تو معاملہ صرف اس نکتہ پر اڑا ہوا ہے کہ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے یا وہی پرانا طریق کاراختیار کیا جائےگا ،حکومت نے بظاہر عجلت میں صدارتی آرڈی نینس جاری کرکے اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے ،مگر یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے اور حکومت کی طرف سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اس کا نفاذ تب ہوگا ،جب سپریم کورٹ اس حکومتی ریفرنس کو منظور کرے گی ،جوحکومت کی طرف سے دائرکیا گیا اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے ۔
ادھر جنوبی پنجاب میں مختلف جماعتوں کے امیدوار سینیٹ کے ٹکٹ کے حصول کے لئے اپنی اپنی کوششوں اور رابطوں کو بروئے کار لانے کا آغاز کرچکے ہیں ،مختلف افواہیں گرم ہیں اورامیدواروں کےبارے میںدعوے کئے جارہے ہیں ،یوں لگتا ہے کہ جیسے جنوبی پنجاب کا ہر بڑا شخص ہی سینیٹ کے ٹکٹ کا امیدوار ہے ،اس میں کچھ غیر سیاسی شخصیات بھی سرگرمی کا مظاہرہ کررہی ہیں ،جن کی واحد پہچان یہ ہے کہ وہ سرمایہ دار ہیں اور ہرچیز خریدنے کی سکت رکھتے ہیں ،یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کس بنیاد پر کی ہے ،یہ بات بڑی مضحکہ خیز لگے گی کہ ایک طرف حکومت یہ دعوی کرے کہ وہ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب اس لئے کرنا چاہ رہی ہے کہ پیسے کے بل بوتے پر سینیٹ کی نشست حاصل نہ کی جاسکے ،جبکہ دوسری طرف کچھ ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگ اپنے سرمایہ کی بنیاد پر سینیٹ میں جانے کی کوشش کررہے ہیں ،گویا ایک طرف اگر سینیٹ میں پیسے کے عمل دخل کو روکا جارہا ہے ،تو دوسری طرف ایک اور انداز سے اس کے عمل دخل کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔
جنوبی پنجاب کو سینیٹ کی کتنی سیٹیں ملتی ہیں ،اس پر تو ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن یہ بات طے ہے کہ جنوبی پنجاب کے کسی سیاسی ورکر کو سینیٹ کی نشست کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت ٹکٹ نہیں دے گی، پیپلزپارٹی کی طرف سے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،کیونکہ پنجاب میں اس کی اتنی نشستیں ہی نہیں ہیں کہ وہ سینیٹ کی کوئی سیٹ حاصل کرسکے ،البتہ اب جو پی ڈی ایم کے درمیان معاہد ہ ہوا ہے اور جس میں یہ طے پایا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لیاجائے گا ،تو یہ یہ ممکن ہے کہ اس فارمولے کے تحت پیپلزپارٹی کو پنجاب سے کوئی نشست مل جائے ، تاہم سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے جو خبریں گردش کررہی ہیں ، ان میں یہ بات نمایاں ہےکہ پیپلزپارٹی انہیں سندھ سے سینیٹ کا رکن بنوانا چاہتی ہے ،گویا پیپلزپارٹی یہ طے کرچکی ہے کہ ملتان کو سینیٹ کی ایک نشست دینی ہے ،مگر اس کے لئے کوٹہ سندھ کا استعمال کیا جائے گا۔
تحریک انصاف جسے ملتان سے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی ،کیا ملتان کو سینیٹ کی کوئی نشست دے گی ،اس بارے فی الوقت گہری خاموشی نظر آرہی ہے ،البتہ جنوبی پنجاب کی ایک صنعتی شخصیت جو سماجی ،معاشی و فلاحی حوالوں سے کافی سرگرم ہیں ، کے حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ ان کے لئے سینیٹ کا ٹکٹ کنفرم ہوچکا ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ہونے والی ان کی ملاقاتیں اسی تناظر میں تھیں ،تاہم ابھی کسی مستند ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے،دوسری طرف پی ٹی آئی کے مقامی حلقوں یہ چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ تحریک انصاف اس بار سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم اپنے پارٹی ورکروں یا رہنماؤں میں کرنے کی بجائے وزیراعظم عمران خان کے اپنے وضع کردہ فارمولا کے مطابق کرے گی، شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو اس بات کا کھٹکا ہے کہ خفیہ رائے شماری ہوئی ،تو اس کے بہت سے ارکان ادھر ادھر ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اب ہرقیمت پر یہ چاہتی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرائے جائیں ،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے جن لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جائیں گے ،وہ شاید اس طرح کے پیراشوٹرہوں گے کہ جیسے اس وقت حکومت میں غیر منتخب افراد ،منتخب لوگوں سے زیادہ اہمیت اختیار کئے ہوئے ہیں ،یہ وہ اعتراض ہے کہ جسے مخدوم جاوید ہاشمی نے پچھلے دنوں اپنی پریس کانفرنسوں میں دہرایا۔
انتخابات کا ذکر آیا ہے تو بلدیاتی انتخابات کا نقارہ بھی بالآخربج چکا ہے ،اس میں سپریم کورٹ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ،جہاں تمام صوبائی حکومتیں اس بات کا جواب دینے میں ناکام رہیں کہ انہوں نے ابھی تک آئین کی اس شق کو کیوں معطل کررکھا ہے کہ جس کے تحت بلدیاتی اداروں کا قیام ضروری ہے ،الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا ہے ،پنجاب میں بھی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت دل سے یہ چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا وہ ایک بار پھر کچھ قانونی مجبوریوں کا سہارا لے کر انہیں مذید موخر کرانے کی کوشش کرے گی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوئے، تو حکومت کو اپنی معاشی بری کارکردگی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،اس وقت ایسے حالات نہیں ہیں کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ بلدیاتی نمائندوں کا تحریک انصاف سے چناؤ کیا گیا توان کے لئے ترقی و خوشحالی کے دروازے کھل جائیںگے ،کیونکہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی جو کارکردگی رہی ہے ،وہ ایسی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پریہ توقع کی جاسکے کہ لوگ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے ،شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اب تک بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہےکہ جب بلدیاتی ادارے ختم کئے گئے تھے، تو ان میں اکثریت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تھی ،گویا ابھی تک لوگوں کے ذہن میں وہی عوامی نمائندے ہیں جو انہوں نے مسلم لیگ ن کے دور میں منتخب کئے تھے ،ایسے حالات میں مسلم لیگ ن ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثریت بھی حاصل کرسکتی ہے ،جس کا حکومت کو کھٹکا ہے اور اس لئے وہ انتخاب کرانے سے احتراز کرتی آئی ہے ،لیکن اب شاید اس سلسلہ کو مذید نہ ٹالا جاسکے ،کیونکہ ایک طرف سپریم کورٹ تو دوسری طرف الیکشن کمیشن نے دوٹوک فیصلہ دے دیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات وقت کی ضرورت ہیں، انہیں مزید مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔