ملکی سیاست کا محور اس وقت سینیٹ کے انتخابات ہیں ۔ الیکشن کمیشن آج سینیٹ الیکشن کیلئے انتخابی شیڈول جاری کرے گا۔سینیٹ کے انتخابات اگلے ماہ ہوں گے ۔وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذ ریعے کرانے کیلئے پہلے قومی اسمبلی میں بل پیش کرایا لیکن اس کا نتیجہ تو پہلےسے معلوم تھاکیونکہ آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں اور اپوزیشن تعاون کیلئے تیار نہیں تھی نہ ہی حکومت نے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کو شش کی ۔ دو نوں جانب سے اس ایشو کو سیا سی پوائنٹ سکورننگ کیلئے استعمال کیا گیا۔قومی اسمبلی میں تو یہ ترمیم ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی لیکن جونہی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی ہوئے تو صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا گیا ۔
وفاقی کابینہ نے سرکولیشن کے ذ ریعے اس الیکشنز ( ترمیمی ) آرڈی ننس 2021کی منظوری دی۔ چونکہ سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلئے حکومتی ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اسلئے اس آرڈی ننس کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مشروط کیا گیا ہے۔سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ کے ذ ریعے ہوں یا خفیہ رائے دہی سے بہر حال یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے ایک مشکل امتحان ثابت ہوں گے ۔پی ٹی آئی کا ہدف یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرلی جا ئے تاکہ قانون سازی میں پچھلے ڈھائی سالوں میں جو مشکل پیش آئی ہے اس سے نجات مل سکے لیکن امکان یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کی نشستیں برابر رہیں گی اور یہ معلق ایوان بن جا ئے گا۔ جس میں طاقت کا توازن چھوٹی جماعتوں کے ہاتھ میں چلا جا ئے گا۔
پی ٹی آئی کی قیادت کو گزشتہ سینیٹ انتخابات کا تلخ تجربہ ہے جس میں اس کے 20ایم پی ایز نے ووٹ بیچ دیے تھے۔ ان ایم پی ایز کو پارٹی سے نکال کر اگرچہ اچھی مثال قائم کی گئی لیکن پھر بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اس مرتبہ پھر سے ووٹوں کی خرید وفروخت نہیں ہوگی ۔ ذ رائع کے مطابق پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی چاہتے ہیں کہ پارٹی کے جینوئن نظر یاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیے جائیں مگر وزیر اعظم اپنے بعض غیر منتخب مشیروں اور معاون خصوصی کو ٹکٹ دینا چاہتے ہیں جس پر پارٹی ممبران اسمبلی کے تحفظات ہیں ۔ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ ، شہزاد اکبر ، با بر اعوان ، زلفی بخاری ، عبد الرزاق دائود ، ثانیہ نشتر سمیت کئی امیدوار ہیں جن کو ٹکٹ کی کلیرنس دی جاچکی ہے۔
حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ ان کے کئی ممبران اسمبلی پارٹی فیصلوں سے انحراف کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے اون بیلٹ کے آپشن پر زور دیا تاکہ کوئی ووٹ ضا ئع نہ ہو۔ پی ڈی ایم نے اگرچہ اپنے سر براہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مل کر الیکشن میں حصہ لیں گی لیکن عملی طور پر یہ شاید ہی ممکن ہو ۔مسلم لیگ ن کو پنجاب میں پہلے ہی کئی ممبران اسمبلی کی بغاوت کا سامنا ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن اور سید یوسف رضا گیلانی بھی سینیٹ کا الیکشن لڑیں گے اور اپوزیشن کی جانب سے چیئر مین سینیٹ کے متوقع امیدوار ہیں ۔ حکومت کی جانب سے مو جودہ چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی ہی امیدوار ہوں گے۔
سینیٹ کے الیکشن کے بعد قومی سیا ست میں ہلچل پیدا ہوگی ۔ پی ڈی ایم نے 26مارچ کو اسلام آ باد کیلئے لانگ مارچ کی کال دی ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی سیا ست نے کئی رخ اختیار کئے اورر با ر بار اہداف بھی بدلے اور حکمت عملی ۔ یہ تبدیلیاں کچھ تو اندرونی دبائو کے باعث کی گئیں اور کچھ بیرونی ۔ ابتداء میں پی ڈی ایم کا ہدف یہ تھا کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کیا جا ئے ۔ اسی کے مطابق جلسوں کی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ یہ طے کیا گیا کہ جلسوں سے رائے عامہ ہموار کرکے فروری میں اسلام آ باد کو لانگ مارچ کیا جا ئے گااور ممبران پارلیمنٹ استعفے دیں گے جس کے دبائو میں حکومت گر جا ئے گی لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
سب سے پہلے پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات میں حصہ لےکر یوٹرن لیا۔ پھر سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے پہلے سے بنایا گیا ٹیمپو توڑ دیا اور اپنی ہی حکمت عملی کی نفی کردی کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔پی ڈی ایم نے دوسرا یوٹرن نظر یاتی اعتبار سے لیا ۔ پیپلز پارٹی نے تو ابتداء میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اپنا طرز عمل محتاط کرلیاتھا۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور مو لا نا فضل الرحمٰن نے بھی اب پیپلز پارٹی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں محتاط رویہ اپنا لیا ہے۔اب ہدف عمران خان ہیں اسٹیبلشمنٹ نہیں ۔
اس سے قبل یہ کہا جا تا تھا کہ ہماری لڑائی سلیکٹرز کے ساتھ ہے کیونکہ عمران خان کو لانے کے ذمہ دار وہ ہیں لہٰذا حالات کے ذمہ دار بھی وہی ہیں ۔کہا جا تا ہے کہ پی ڈی ایم کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا ہے ۔ اس تبدیلی سے اگرچہ پی ڈی ایم کی سیاسی ساکھ کو نقصان ہوا ہے لیکن عملی طور پر انہیں اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ عمران خان کی اب تک کی حکمت عملی یہ تھی کہ پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کو لڑایا جا ئے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس واحد آپشن عمران خان ہی رہیں۔جب سے پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہوئے ہیں تب سے حکومتی حلقوں کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد کی بات ہوا میں نہیں کی ۔
وہ کا میابی سے اپنے کارڈکھیل رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے امکان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ انہوں نے تمام ممبران قومی اسمبلی سے گروپوں کی صورت میں ملاقاتیں کی ہیں ۔بہر حال سینیٹ کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ڈول ڈالا جا ئے گا۔ آصف علی زردار ی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں نقب لگا چکے ہیں۔
کئی حکومتی ممبران ان سے اربطے میں ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے پی ڈی ایم سے رابطوں کے بعد حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب حکومت کے ساتھ فریق بننے کی بجائے غیر جانبدار رہے گی ۔ایسی صورت میں حکومت کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ اب تک وزیر اعظم اپنی قوت کا ذ ریعہ ایک پیج کو قرار دیتے ہیں ۔