سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے انہیں کالموں میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ سینٹ انتخاب میں حصہ لیں گے، اس خبر پر ابتدا میں حیرت کا اظہار کیا گیا تھا اور یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے پاس اکثریت ہی نہیں ہے تو یوسف رضا گیلانی کہاں سے منتخب ہوں گے، تاہم اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی کو سندھ اسمبلی یا اسلام آباد سے آگے لایا جا سکتا ہے، اب جبکہ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرا دیئے ہیں تو یہ چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ ان کے جیتنے کے امکانات کتنے ہیں اور اس حوالے سے پیپلزپارٹی سید یوسف رضا گیلانی کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔
تاہم جس طرح ان کے تجویز اور تائید کنندہ دہ بالترتیب شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف بنے ہیں، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں خود مسلم لیگ ن کتنی سنجیدہ ہے اور انہیں پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی نشست پر نامزد کرنے کا اصل مقصد کیا ہے ، جوں جوں دن گزریں گے ،یہ بات واضح ہوتی جائے گی کہ سید یوسف رضا گیلانی حکومت کے لیے کتنا بڑا دردسر بن سکتے ہیں ،بات صرف ان کے سینیٹر منتخب ہونے تک کی نہیں ہے بلکہ اصل مرحلہ اس وقت آئے گا جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو گا اور سید یوسف رضا گیلانی ایک بڑی قدآور شخصیت کے طور پر پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے چیئرمین شپ کے لئے میدان میں اتریں گے۔
تحریک انصاف کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ ٹوٹنے سے کیسے روکے، کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی جیسا منجھا ہوا سیاستدان جو اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے اور جس کے مختلف سیاسی خاندانوں سے دیرینہ تعلقات ہیں ، اس کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کی حیثیت سے بھی یوسف رضا گیلانی نے بہت سی سیاسی قوتوں کو اپنی روایتی دوستی کے جال میں جکڑ رکھا ہے، اس لیے جب وہ مہم چلائیں گے تو وہ کافی حد تک صورتحال تبدیل کرسکتے ہیں۔
ویسے قومی اسمبلی میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ،جمعیت علماء اسلام ف ،بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتیں اور فاٹا کے ارکان اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی نے معمولی سا بھی اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کیا ،تو ان کا جیتنا یقینی ہو جائے گا،سید یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ سینیٹر بننے کے لیے روایتی ہتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے، یعنی ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ووٹ خریدنے جیسے ناپسندیدہ عمل کا حصہ بنیں،البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے ذاتی تعلقات اور سیاسی حوالے سے بہت سوں کو اس بات پر راضی کر سکتے ہیں کہ انہیں سینیٹر بنایا جائے، تاکہ وہ اس اہم آئینی ادارے کے چیئرمین کی حیثیت سے ملک میں نئی سیاسی روایات کا آغاز کرسکیں ۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس صورتحال کا پوری طرح ادراک ہے ، شاہ محمود قریشی سمیت دیگر سرکردہ رہنماؤں کو متحرک کردیا گیا ہے کہ وہ سیدیوسف رضا گیلانی کی رابطہ مہم پر پوری طرح نظررکھیں،ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی خاص طور پرپی ٹی آئی کے ناراض اراکین کی اس حوالے سے نقل وحمل کی نگرانی کرنے ، سیدیوسف رضا گیلانی کے قریبی عزیز اورپی ٹی آئی کے اب بھی بااثر ترین رہنما جہانگیر ترین کی سیاسی سرگرمیوں، ملاقاتوں یا رابطوں پر بھی نظررکھنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ادھر تحریک انصاف نے پورے جنوبی پنجاب میں سے صرف ایک شخص کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا ہے اور ان کا نام عون عباس بپی ہے،بظاہر یہ ٹکٹ میرٹ پر دیا گیا ہے کیونکہ بطور چیئرمین بیت المال عون عباس بپی کی کارکردگی بہتر رہی اور وہ وزیراعظم عمران خان کی توقعات پر پورا اترے۔
تاہم ملتان کے مقامی حلقے عون عباس بپی کو ٹکٹ ملنے پر اس لیے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ کبھی بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گروپ میں نہیں رہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملتان کے تمام فیصلے شاہ محمود قریشی کی مرضی سے ہوتے ہیں، یہ ٹکٹ ان کی مرضی کے بغیر اگر عون عباس بپی کو ملا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا ،عون عباس بپی تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن ہیں اور وہ ماضی میں کئی بار شاہ محمود قریشی کو جماعت کے پلیٹ فارم سے للکار بھی چکے ہیں جس کی پاداش میں انہیں تنظیمی عہدے سے بھی ہٹایا گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق جہانگیرترین گروپ سے ہے ،اگرچہ جہانگیر ترین گروپ بظاہر اس وقت فعال نہیں ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کے اندر اس گروپ کا ابھی بھی اثرورسوخ موجود ہے ،یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ جنوبی پنجاب کی اتنی بڑی آبادی کو جو پنجاب کا تقریبا نصف کہلاتی ہے،سینٹ کی صرف ایک ٹکٹ دی گئی ہے ،حالانکہ اسے پنجاب اسمبلی کے کوٹہ سے کم ازکم چار نشستیں دی جانی چاہیے تھیں ،مگرایسا نہیں ہوسکا اور بہت سے لوگ جو ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھےتھے ،وہ سب بن کھلے غنچوں کی طرح مرجھا گئے ،صرف تحریک انصاف پر ہی موقوف نہیں بلکہ مسلم لیگ ن نے بھی سینٹ کا ٹکٹ دینے کے معاملہ میں جنوبی پنجاب کو ایک بار پھر نظر انداز کیا ہے، جس سے اس کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے ،یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سینٹ کی جتنی بھی نشستیں ہیں۔
ان میں سے صرف ایک جنوبی پنجاب کے حصہ میں آئی ہے ،جہاں تک سید یوسف رضا گیلانی کی بات ہے ،تو انہیں پنجاب اسمبلی کے کوٹہ پر ٹکٹ نہیں دی گئی ،یہ اتنا بڑا معاملہ ہے کہ جس سے ایک بار پھر یہ حقیقت ثابت ہوگئی ہے کہ جنوبی پنجاب کو سینیٹ کے معاملہ میں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے،صوبہ کی 25 نشستیں ہیں لیکن ان پچیس میں سے کبھی بھی ایک یا دو سے زیادہ سینیٹرز جنوبی پنجاب سے نہیں لئے گئے،حالانکہ آبادی کے تناسب سے سینٹ میں جنوبی پنجاب کو کم از کم نصف نشستیں ملنی چاہیں ۔سینٹ کے انتخابات نے سیاست کی گرم بازاری کو دو چند کر رکھا ہے، لگتا یہی ہے کہ اب تحریک انصاف اور پی ڈی ایم سینٹ انتخابات کے حوالے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پورا زور لگا رہی ہیں ،اگر تحریک انصاف کو اس کی اسمبلیوں میں تعداد کی نسبت سے سینیٹ کی نشستیں نہ ملیں، تو یہ اس کے لئے بہت بڑا سیٹ بیک ہو گا اور وزیراعظم کا یہ دعوی کہ ہمیشہ اقتدار میں موجود جماعت کو سینیٹ انتخابات میں فائدہ ہوتا ہے، غلط ثابت ہو جائے گا۔
حکومت نے جس طرح اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کرانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید تحریک انصاف کو ایک بار پھر یہ خدشہ ہے کہ اس کے ارکان اسمبلی بے وفائی کر سکتے ہیں، تاہم ابھی تک چونکہ کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا اور مشروط آرڈی نینس بھی پوری طرح نافذ العمل نہیں ہوا ، توتوقع یہی کی جا رہی ہے کہ شاید اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات نہ ہو سکیں ، لیکن اس وقت جو بے یقینی کی فضا موجود ہے اس میں جوڑتوڑ کا معاملہ بھی شایدتعطل کا شکار رہے، لگتا یہی ہے کہ حکومت نے عجلت میں جو آرڈی نینس جاری کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ بے یقینی کی فضا پیدا کی جائے، تاکہ سینیٹ انتخاب کے لیے اگر جوڑ توڑ کا امکان ہو، تو اس میں کوئی حتمی صورت پیدا نہ ہو سکے ،لیکن اس کے باوجود ’’عقل عیار ہے ہے سو بھیس بٹا لیتی ہے ‘‘ کے مصداق یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے ، بہر حال بساط بچھ چکی ہے ، اب دیکھتے ہیں کہ شطرنج کے خود چال چلتے ہیں یا کوئی غیبی ہاتھ انہیں استعمال کرنے کے روایتی طریقے اختیار کر لیتا ہے۔