ملک کے ایوان بالا کے آئندہ چھ سال کے لئے ارکان کے انتخاب کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے نامزد ارکان کی کامیابی کے لئے جوڑ توڑ اور رابطوں مین تیزی آرہی ہے ، بلوچستان میں بھی سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سرگرمیاں عروج پر ہیں ، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال و دیگر مراحل ان سطور کی اشاعت کے مکمل ہوچکے ہوں گے ، کاغذات نامزدگی واپس لیے جانے کی آخری تاریخ کے بعد پارٹی امیدواروں کے حوالے سے صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں ، 36 امیدوار میدان میں آگئے ، 7 جنرل نشستوں پر18، ٹیکنو کریٹ کی دو نشستوں پر4، خواتین کی دو نشستوں پر 9 جبکہ اقلیتوں کی ایک مخصوص نشست پر 5 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا ، جنرل نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ، آغا عمر زئی، اورنگزیب بادینی، عبدالخالق اچکزئی، سرفراز بگٹی، عبدالقادر ، ستارہ ایاز،ٹینکو کریٹ کی نشستوں پر منظور کاکڑ، نوید جان بلوچ سعید احمد ہاشمی ، خواتین کی نشستوں پر شانیہ خان ، کاشفہ گچکی ، ثمینہ ممتاز ، اقلیت کی نشست پر دھنیش کمار اور خلیل جارج بھٹو ،جمعیت علما اسلام کی جانب سے جنرل نشستوں پر مولانا عبدالغفور حیدری ، خلیل بلیدی ، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر کامران مرتضی خواتین کی نشست پر آسیہ ناصر اقلیتی نشست پر ہیمن داس ،بی این پی کی جانب سے ساجد ترین ، محمد قاسم رونجھو ، حسین واڈیلہ بلوچ نے جنرل ، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ساجد ترین خواتین نشست پر طاہرہ احساس شمائلہ اسماعیل اور اقلیتی نشست پر سنیل کمار ،پشتونخوا میپ کے عثمان خان کاکڑ جنرل کی نشست ،پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ظہور آغا،اے این پی کی جانب سے ارباب عمر فاروق کاسی جنرل اور خواتین و اقلیت نشستوں پر بینش سکندر ایڈووکیٹ ،بی این پی عوامی کی جانب سے میر اسرار اللہ زہری جنرل نشست ، پاکستان نیشنل پارٹی کی نسیمہ احسان ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی عاطفہ صادق خواتین نشست ،جمہوری وطن پارٹی کے جواد ہزارہ جنرل جبکہ آزاد امیدوار سردار خان رند جنرل نشست پر امیدوار ہوں گے۔سب سے زیادہ سخت مقابلہ جنرل نشستوںپر متوقع ہے ، جہاں تمام پارلیمانی جماعتوں کے مضبوط امیدوار مقابلے میں ہیں۔
تاہم کاغذات نامزدگی واپس لیے جانے کے بعد پارلیمانی جماعتوں کے امیدواروں کے حوالے سے صورتحال زیادہ واضح ہوجائے گی ، پاکستان تحریک انصاف نے جنرل نشست پر پہلے بلوچستان سے عبدالقادر کوسینیٹ انتخابات کے لئےپارٹی ٹکٹ جاری کیا تھاجس پر تحریک انصاف بلوچستان کی جانب سے مزاحمت نظر آئی پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے پارٹی ٹکٹ کے فیصلے پی ٹی آئی بلوچستان کے تمام ریجنز کے عہدیداروں نے مشترکہ پریس کانفرنس کے زریعے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور مرکزی قیادت کی جانب سے نامزد امیدوارکو پیرا شوٹر تک قرار دیا جس کے بعد پارٹی چیئرمین عمران خان نے پارٹی ٹکٹ عبدالقادر سے واپس لیکر بلوچستان میں پارٹی کے ایک پرانے رہنما سید ظہور آغا کو پارٹی کا ٹکٹ جاری کیا۔
تاہم پارٹی چیئرمین عمران خان کے اس فیصلے پر بھی تحریک انصاف بلوچستان میں مختلف آرا نظر آئی ہے۔وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ عبدالقادر 2004ء سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو شائد پتہ نہیں کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے ، تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی نے مشترکہ طور پر انہیں نامزد کیا تھا اور وزیراعظم عمران خان کا بھی اس حوالے سے بیان سامنے آیا ، عبدالقادر کے حوالے سے تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی نے مشترکہ کوشش کی تھی کہ دونوں جانب سے ان کے فارمز جمع کرائے جائیں تاہم وہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف نے اپنا فیصلہ واپس لیا ہے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں ایک عجیب لفظ پیراشوٹر آگیا ہے سینیٹ ایک مختلف پلیٹ فارم ہے اور ہر پارٹی اپنی اپنی نمائندگی ایوان بالا میں لاتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اپنی نمائندگی کسی ایک صوبہ سے لائے ، پاکستان تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی مثال لی جائے تو جہاں جہاں انہیں موقع ملا ہے وہ اپنے نمائندے لائے ہیں ۔
بلوچستان عوامی پارٹی اس وقت اگر 24 نشستوں کیساتھ بلوچستان اسمبلی میں ہے تو ہوسکتا ہے آئندہ وقت میں پارٹی کی کارکردگی کسی دوسرے صوبے میں بہتر ہو اور یہاں سے ہماری سیٹیں کم ہوکر وہاں زیادہ ہوں اگر ہمیں اپنی پارٹی کے کسی عہدیدار کو سامنے لانا ہے تو ہوسکتا ہے اس کا تعلق کسی دوسرے صوبے سے بھی ہو ، سیاسی پارٹیاں بہت سے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں ۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں مختلف جماعتوں کی جانب سے رابطوں میں تیزی آگئی ہے ، اور سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ جاری ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی آرگنائزر میر جان محمد جمالی کی قیادت مین پارٹی وفد نے مختلف جماعتوں سے رابطے کیے ہیں تو اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں بھی اس حوالے سے نہائت سرگرم ہیں ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر مینگل کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی اور جمعیت علما اسلام کے صوبائی سربراہ رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع کی قیادت میں کمیٹی کی بلوچستان اسمبلی کی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں ، بلوچستان اسمبلی میں آزاد رکن سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے سینیٹ انتخابات میں جمعیت علما اسلام کی غیر مشروط حمایت کی ہے ۔
بلوچستان میں ماضی میں بھی سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرئے کے تعاون سے حصہ لیتی رہی ہیں سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بعض پارٹیاں زیادہ نمائندگی نہ ہونے کے باوجود دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے باعث اچھے نتائج حاصل کرتی رہی ہیں ، سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں بھی بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے والی جماعتیں زیادہ کامیابی حاصل کرسکتی ہیں ۔