• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی، ناکامی، کوتاہی کا الزام دوسروں کو نہ دیں

نوجوان خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں، کیونکہ ان میں جوش ولولہ اور کچھ کر گزرنے کا عزم بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے، مگر اس حقیقت سے آگہی رکھنے کے باوجود اس حقیقی قوت کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مستقبل کے معماروں کو معیاری تعلیم، تفریح کے مواقع، روزگار کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ جدید صنعتی تقاضوں اور درکار ہنرمندی سے ہمکنار کیا جائے۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنے ترقی کرنے کے لئے مفید اور بامقصد مشوروں سے نوازنے کے لئے ایڈوائز سینٹر قائم کئے جائیں، جو کالجوں اور جامعات میں نوجوان طلبہ کی رہنمائی کرسکیں۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لئے مغربی ممالک کی طرح آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں۔ 

جامعات میں تجربہ گاہوں کو جدید ساز و سامان سے آراستہ کیا جائے اور ملک میں اقربا پروری، سفارش، رشوت ستانی اور نقل کے رجحانات کا خاتمہ کیا جائے۔ بنظر غائر یہ سب کچھ محض ایک سراب لگتا ہے مگر قوم اور ارباب اختیار ایسا کچھ کرنا چاہیں تو کچھ ناممکن نہیں ہے دیگر ممالک میں ایسا ہی کچھ ہورہا ہے کیونکہ وہ اپنے ملک اور قوم کو عصری تقاضوں کا، آنے والے وقتوں کا مقابلہ کرنے اور ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔

ملک میں تاحال جو معاشرتی سماجی اور سیاسی حوالوں سے جائزوں اور سروے رپورٹس سامنے آئی ہیں ان کے مطابق نوجوانوں کی نمایاں تعداد جن میں پندرہ سال سے تیس سال تک کے نوجوان شامل ہیں، ان میں خود اعتمادی کی کمی، مایوسی، فرسٹریشن، ابہام، اطراف سے بے زاری، اخلاقی اقدار سے لاپروائی پائی جاتی ہے، جس کا سبب ماہرین، تجربہ کار اساتذہ کے نزدیک معاشی، سماجی، سیاسی مسائل، بے روزگاری اور نااتفاقی ہے جو نوجوانوں کو متاثر کررہی ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں زیادہ تر والدین اپنے بچوں میں پائی جانے والی کسی بھی کمی، کوتاہی یا برائی کی تمام تر ذمہ داری بچوں کے دوست احباب یا اڑوس پڑوس کے بچوں پر ڈال دیتے ہیں یا اسکول کالج کے ساتھیوں کو ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے یا نوجوان مزید ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور والدین اس طرح اپنی ذمہ داری سے دامن جھٹک لیتے ہیں۔ اس طرح کی طرز فکر درست نہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کی بنیادی تربیت کی ذمہ داری والدین اور خاندان کے بزرگوں پر عائد ہوتی ہے۔ کالج اور جامعہ میں نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ 

یہاں تعلیم میں نوجوانوں کو کیا سکھاتے پڑھاتے اور ان کی تربیت کرتے ہیں یہ پہلو عذر طلب ہے۔ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا ، اخلاقی قدروں، عام قوانین، صفائی ستھرائی کا تصور، بزرگوں اور خواتین کا احترام، مطالعہ اور مشاہدہ کا شوق، مکالمہ کی صلاحیت ان سب معاملات سے آگہی اور پابند کرنا تعلیمی نصاب میں شامل ہونا چاہئے۔ اس مضمون کو اختیاری نہیں بلکہ لازمی قرار دینا چاہئے۔

ہمارے ملک میں جو تعلیمی نصاب رائج ہے، امتحانات کا طریقہ ہے، تعلیم کے مسئلے پر ریاست کا جو عمومی رویہ ہے، معذرت کے ساتھ یہ سب کچھ ناقص ہے اور آج کے دور کے تقاضوں، معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ نوجوان طلبہ رٹ رٹاکر امتحان پاس کرلیتے ہیں، پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک تعداد اس سے بھی جی چراتی ہے وہ شارٹ کٹ پر یقین رکھتے اور نقل کرنے کے ہر موقع کو استعمال کرتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں طلبا ریاست اور قوم کا ناقابل برداشت نقصان ہورہا ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ 

زندگی کسی پرشور تیز بہائو دریا کی مانند ہے جو وادیوں، پہاڑوں، سنگلاخ راہوں سے گزرتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے، اسی طرح زندگی میں بھی نشیب و فراز ، سرد و گرم اور خوشی و الم کے مواقع آتے ہیں، جن کا ہنسی خوشی سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی دائمی نہیں ہوتی اس کا دار و مدار ہماری سوچ، طرز عمل اور منصوبہ سازی سے ہوتا ہے، اگر اس میں کہیں جھول نہیں تو کامیابی یقینی ہے۔ مستقل مزاجی سے کی گئی جدوجہد رائیگاں نہیں جاتی۔ نوجوانوں کو دیگر اقوام کی کامیاب شخصیات کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہئے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس نے کس طرح کامیابی حاصل کی اور وہ شخصیت کس ماحول اور معاشرے میں پروان چڑھی۔ 

عام طور پر ہمارے معاشرے میں کسی بڑی شخصیت کے حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ خود اپنے بچپن میں کسی ہوٹل میں برتن صاف کرتا تھا، فٹ پاتھ پر اخبار فروخت کرتا تھا، محنت مزدوری کرتا تھا یا اس فرد کے والد جوتے سیتے تھے، لوہار تھے یا کارپینٹر، ڈرائیور تھے تو اس شخصیت کو اس تناظر میں دیکھتے ہوئے اس فعل کو محنت مزدوری کو اس پر چسپاں نہیں کرنا چاہئے اور اس کو کمتر نہیں سمجھنا چاہئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بڑی بڑی شخصیات کا بچپن یا جوانی کسمپرسی میں محنت مزدوری کرتے گزری مگر ان افراد نے اپنی محنت، صلاحیت اور مستقل مزاجی سے بلند مقام حاصل کئے۔ اسی طرح ہمارے اطراف ہماری تاریخ میں بھی اس طرح کی شخصیات ہیں جن کی زندگی جدوجہد اور طرزفکر سے نوجوان استفادہ کرسکتے ہیں۔

نوجوانوں کو پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کامیابی، بڑا مرتبہ، بلند مقام اور عزت دولت شہرت کسی کی میراث نہیں ہیں۔ یہ ہر اس فرد کو حاصل ہوسکتی ہے جو زندگی میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ، اعتماد اور عزم رکھتا ہو، اس کے حصول کے لئے مستقل مزاجی، خلوص اور اپنے اطراف سے بے خبر جدوجہد کرتا ہے۔ کامیابی کسی نسل، زبان، مذہب، علاقے اور جنس کی بھی میراث نہیں ہے۔ آج کا دور جدید بے شمار ایجادات اور دریافتوں سے مرصع ہے۔ ہر دن ایک نئی تحقیق، نیا انکشاف، ایک نئی کامیابی سامنے آتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام مزید ترقی کرنے کی لگن میں آسمانوں کی خبریں لارہی ہیں، کم ترقی یافتہ اقوام ترقی کی نئی منزلوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ دور اعلیٰ معیاری تعلیم، تحقیق، جستجو اور ہنرمندی کا دور ہے۔ 

انسان کے سامنے نئے چیلنجز، نئے معرکے اور نئے مسائل ہیں، جن کو سر کرنے، حل کرنے کے لئے انسان پوری شدومد سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں کورونا جیسی وبائی بیماری نے کرہ ارض کے تمام انسانوں کو گونا گوں مشکلات، مصائب و آلام سے دوچار کردیا۔ ایسے میں پوری عالمی برادری متحد ہوکر اس مہلک وبائی بیماری کا مقابلہ کررہی ہے۔ مختلف ممالک کووڈ۔19کی ویکسین تیار کرنے میں کوشاں ہیں اور چند ایک نے تاحال کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس طرح انسان کو کبھی بھی کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، کچھ اسی طرح فرد کی عام زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں ہر نوجوان اور ہر فرد کو پوری یکسوئی، خود اعتمادی اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے، اگر آپ نے اپنے مسائل حل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پہلا قدم بڑھا دیا اور صبر و استقامت سے آگے بڑھتے رہے تو کامیابی یقینی ہے۔

نوجوانوں کو ایک اور اہم ترین بات یہ ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی شہ وقت ہے۔ وقت کا دھارا کسی بہتے دریا کی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔ وقت کا ضیاع سب سے بڑا نقصان اور کوتاہی کی انتہا ہے۔ جو وقت کی قدر کرتا ہے وقت اس کی قدر کرتا ہے۔ جو وقت کی پروا نہیں کرتا، وقت اس کی بھی پروا نہیں کرتا۔

عمومی طور پر ہمارے معاشرہ میں زیادہ تر نوجوان اپنی کوتاہی، غفلت، ناکامی کو اپنی بدقسمتی سے موسوم کردیتے ہیں، سارا گلہ شکوہ قسمت سے ہوتا ہے، جب کہ یہ انداز فکر کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی حکم ہے کہ محنت کرو، علم حاصل کرو اور جدوجہد کرو۔ نوجوان اس حقیقت کو بھی ضرور سمجھنےاور غور کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کی قسمت، کامیابی خوشحالی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ناکامی یا کوتاہی کی ذمہ داری دوسروں پر تھوپ کر دراصل اپنے آپ سے آنکھیں چراتے ہیں۔ حقیقت سے روگردانی کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی قومی، معاشرتی، سماجی، مذہبی اور سیاسی طور پر ذہنی تربیت کے لئے تعلیمی درس گاہوں میں طلبہ تنظیموں کا قیام بہت ضروری ہے۔ 

اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ نوجوانوں کی ذہنی اور فکری ترقی سے عموماً خائف نظر آتی ہے اس کی وجہ ملک میں نیم جمہوری، نیم جدید، نیم رجعت پسند اور ناہموار سماجی معاشی نظام رائج چلا آرہا ہے، اس بوسیدہ غیرفعال اور بے مقصد نظام میں تنظیموں، تحریکوں اور جدوجہد کی کم کم گنجائش ہوتی ہے۔ نوجوانوں میں اکثر جو غیر علمی، غیرمنطقی اور جذباتی رجحانات کا شائبہ دکھائی دیتا ہے وہ ان میں اجتماعی تربیت کے فقدان اور خود ساختہ انفرادی سوچ کا غماز ہے۔ اجتماعی فکر و سوچ سے فرد میں زیادہ خود اعتمادی، فکر و عمل کا حوصلہ اور بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ 

طلبہ تنظیمیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وہ جو صرف نوجوانوں اور ان کے من جملہ مسائل کے حل کی جدوجہد کرتی ہیں اور دوسری وہ جو ان کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کی فکر و عمل کے تناظر میں تلاش کرتی ہیں۔زیادہ بہتر اور مناسب طلبہ تنظیم وہ ہوسکتی ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو، نہ کسی مخصوص سیاسی فکر کی نمائندہ ہو بلکہ تنظیم وہ مناسب ہے جو طلبہ کے من جملہ مسائل کا ادراک رکھتی ہو، ان مسائل کو حل کرنے کی فکر و لگن رکھتی ہو، اس کے ساتھ ملکی سیاسی جماعتوں کے رجحانات کا ادراک رکھتی ہو، تجزیہ کرسکتی ہو اور طلبہ میں علم و آگہی کا شعور بیدار کرنے پر یقین رکھتی ہو۔ اس نوعیت کی طلبہ تنظیموں کا قیام ضروری ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بچے کی تربیت ابتدا ہی سے ہوتی ہے، جن میں پیدا ہونے والے نوزائیدہ کی عمر ایک سال طے کردی جاتی ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل ہی سے جرمن، روس، فرانس اور برطانیہ میں کنڈرگارٹن میں داخل ہونے والے بچوں کا مختلف انداز سے امتحان لیا جاتا تھا، تاکہ معلوم کیا جائے کہ بچے کو کس چیز میں زیادہ دلچسپی ہے۔لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔

ملک کے تعلیمی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی کسی گروہ کے نظریات جماعت یا حکمراں طبقے کی خواہشات کے مطابق نہیں مغربی تقاضوں، قومی ضروریات اور اطراف کے حالات کے مطابق ہونی چاہئے۔ ہم نے 72 برسوں میں ملک کے تعلیمی نظام کے ساتھ بہت کوتاہی برتی ہے۔ ہم درسگاہ یا تعلیمی ادارے کی عمارت بنالیتے ہیں، فرنیچر بھی اچھا ڈال دیتے ہیں اور پھر تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کردیتے ہیں مگر ان تمام لوازمات میں سب سے زیادہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ تعلیم دینے والے اور تعلیمی نصاب وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت اور افادیت رکھتے ہیں۔

زیادہ ضرورت پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کے طلبہ کو معیاری تعلیم اور ضروری تربیت دینے کی ہے، پھر کالجز اور جامعات میں باصلاحیت قابل فیکلٹی، تحقیق پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے دور کی ترقی اعلیٰ تعلیم اور تحقق پر انحصار کرتی ہے۔ خیال آفرینی، تنوع، جدت طرازی اور تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے آگے کا راستہ تلاش کرنا عصری ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو جو کل ملک اور قوم کے رہنما ہوں گے، پاسباں ہوں گے، انہیں چاہئے کہ کتابوں سے لگائو رکھیں، اطراف پر نظر رکھیں، تاریخ پڑھیں، مگر اس میں نہ کھو جائیں، اس سے ماضی کی کامیابی اور ناکامیوں کا جائزہ لیں اور آگے قدم بڑھائیں۔

عادات اطوار رجحانات وقت کے ساتھ بدلتے ہیں 72 برس قبل کی دنیا صرف کتابوں میں مقید ہے۔ حالات نظریات مفادات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی رواں دواں ہے ساکت یا جامد نہیں ہے، غور کریں اور عمل کریں۔

تازہ ترین