چیف سلیکٹر محمد وسیم نے سلیکشن کمیٹی کی باگ دوڑ سنبھالی تو ایسا لگ رہا تھا کہ سلیکٹرز کا سافٹ ویئر ہی تبدیل ہوگیا ہے۔وہ کام جو انضمام الحق اور مصباح الحق جیسے بڑےکھلاڑی نہ کرسکے وہ کام محمد وسیم نے کردئیے، تابش خان سمیت ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو انصاف د یا گیا۔محمد وسیم کی سلیکشن کمیٹی نے جنوبی افریقا کی ہوم سیریز میں زبردست سلیکشن کی۔
شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ مصباح الحق نے ایک سال کے دوران فاش غلطیاں کیں ۔اسی لئے الیون بنانے کا اختیار مصباح الحق سے لے کر کپتان بابر اعظم کو دے دیا گیا۔لیکن جنوبی افریقا اور زمبابوے کی سیریز ٹیم کے اعلان کی سب کو حیران کردیا کیوں کہ تینوں فارمیٹس کی ٹیموں میں سمجھوتہ زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔
کسی فارمیٹ کا کھلاڑی کسی اور فارمیٹ میں منتخب ہوگیا۔ آزمودہ اور ناکام کھلاڑیوں کو موقع دینے کی منظق سمجھ نہ آسکی۔کچھ کھلاڑیوں کوٹیم میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن انہیں موقع دینے سے گریز کیا گیا۔محمد وسیم اور بابر اعظم کو شک کا فائدہ ضرور دیا جاسکتا ہے لیکن دونوں کو اپنی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔فاش غلطیوں کے بعد خراب نتائج سے دونوں مزید تنقید کی زد میں آسکتے ہیں۔لیگ اسپنر کے قریبی دوستوں کا موقف ہے کہ یاسر شاہ اب خود کو فٹ محسوس کررہے ہیں اور وہ انجری سے بھی نجات پاچکے ہیں۔
ان کی فائنل ایم آر آئی رپورٹس ایک دو دن میں آنا باقی ہیں لیکن ٹیم کا اعلان کرکے انہیں باہر کردیا گیا اور یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یاسر شاہ سے کسی نے بات کرکے اعتماد میں لینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ لیگ اسپنر اس رویے پر خاصے خفا ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اگر مجھے اس سیریز میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ پہلے سے ہی کر لیا تھا تو کم از کم بات تو ضرور کرنی چاہیے تھی، میڈیا سے معلوم ہوا کہ فٹنس کو بنیاد بناکر باہر کیا گیا ہے۔اوپنر شان مسعود کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس پر سبھی حیران ہیں۔نیوزی لینڈ کی کارکردگی کے بعد شان مسعود نے پاکستان کپ میں اچھی کارکردگی دکھائی ۔
جنوبی افریقا کے گذشتہ دورے میں شان مسعود نے زبردست کارکردگی دکھائی تھی لیکن انہیں منتخب کرنے کے بجائے بار بار ناکام رہنے والے عابد علی اور عمران بٹ کو موقع دیا گیا ہے۔ عبداللہ شفیق نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی میں ناکام ہوئے لیکن اب وہ ٹیسٹ ٹیم کا حصہ ہیں۔عماد وسیم نے بیٹی کی پیدائش پر جنوبی افریقا کی سیریز مس کی، محمد نواز کو تینوں فارمیٹ میں موقع دیا گیا۔ محمد وسیم کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقا کے خلاف پاکستان کو تین ون ڈے اور چار ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلنا ہے جس کے لیے کپتان اور کوچ کی مشاورت سے ٹیم کا اعلان کیا ۔
آئندہ کے ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھ کر کھلاڑیوں کو موقع دے رہے ہیں، جو کھلاڑی شامل نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پلان میں شامل نہیں ہیں۔شعیب ملک اور وہاب ریاض بھی سلیکٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔دادو کے لیگ اسپنر زاہد محمود نے جنوبی افریقا کے خلاف ٹی ٹوئینٹی میں کامیاب ڈیبیو کیا انہیں ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ملی ہے۔
لاڑکانہ کے نوجوان فاسٹ بولر شاہ نواز دہانی نے پی ایس ایل میں غیر معمولی بولنگ کی وہ ٹیسٹ ٹیم میں آگئے ہیں۔کراچی کنگز کے اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ اوپنر شرجیل خان کو ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے جبکہ آل راؤنڈر شاداب خان نے بھی انجری سے چھٹکارا پالیا ہے جس کے بعد انہیں بھی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے۔شرجیل کی فٹنس کے بجائے کارکردگی کو معیار بنایا گیا ہے محمد وسیم کہتے ہیں کہ فٹنس پروٹوکول میں نرمی کی جارہی ہے۔اگر فٹنس معیار نہیں تو اعظم خان کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سمجھ میں نہ آسکی۔
ایک سال قبل پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہا تھا کہ شرجیل خان پابندی کے دور میں اپنی فٹنس کا معیار برقرار نہیں رکھ سکے،قومی ٹیم میں واپسی کیلیے ان کو طویل سفر کرنا ہوگا، طے شدہ معیار پر پورا اترنے کی صورت میں ہی انھیں زیر غور لایا جائے گا۔ٹیم کے اعلان کے وقت محمد وسیم نے کہا کہ صرف فٹنس ہی سلیکشن کا معیار نہیں ہے، فٹنس معیار پر نظر ثانیکے لئےکام کر رہے ہیں ،نئی پالیسی متعارف کروائی جائے گی۔ہم پرفارم کرنے والے ہر کھلاڑی پر نظر رکھیں گے، خواہ اس کی فٹنس جیسی بھی ہو، شرجیل خان کی فٹنس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہمیں بڑے میچ جتوا سکتے ہیں۔شاداب خان کارکردگی دکھائے بغیر ٹیم میں آگئے۔یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات کے جواب حیرت زدہ کررہے ہیں۔
ڈومیسٹک ریکارڈ ہولڈر بیٹسمین کامران غلام کو منتخب نہ کرنا بھی ناانصافی ہے۔ پہلی بار اندرون سندھ کے چار کھلاڑی شرجیل خان،نعمان علی،شاہ نواز دھانی اور زاہد محمود پاکستانی ٹیم کے ساتھ افریقن سفاری میں شامل ہوں گے۔قومی سلیکشن کمیٹی نے صوابی سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ فاسٹ بولر ارشد اقبال اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ محمد وسیم جونیئر کو قومی ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں شامل کیا۔ ارشد اقبال نے ڈومیسٹک سیزن 21-2020 میں ٹی ٹونٹی میچز میں 10 اور ون ڈے میچز میں 7 وکٹیں حاصل کیں۔ اس دوران محمد جونیئر نے ون ڈے میچز میں 7 جبکہ پی ایس ایل 6 میں 4 وکٹیں اپنے نام کیں۔قومی سلیکٹرز نے اعلان کردہ ٹیسٹ اسکواڈ میں بھی ایک نیا چہرہ شامل کیا ہے۔
لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ فاسٹ بولر شاہنواز دھانی نے اپنے ڈیبیو سیزن میں 26 وکٹیں حاصل کرکے سلیکٹرز کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے۔انہوں نے نیشنل ٹی ٹونٹی کپ میں سندھ سیکنڈ الیون کی نمائندگی کرتے ہوئے 6 وکٹیں حاصل کیں ، جس کے بعد انہوں نے پاکستان کپ میں 5 اور پی ایس ایل 6 میں 9 وکٹیں اپنے نام کیں۔
جنوبی افریقاکے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں شامل قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں 2 تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بیس رکنی اسکواڈ میں کامران غلام اور یاسر شاہ کی جگہ شاہنواز دھانی اور زاہد محمود کو شامل کرلیا گیا ہے۔ یاسر شاہ بائیں گھٹنے کی انجری کے باعث زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچز کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔
محدود طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے نائب کپتان شاداب خان اور مڈل آرڈر بیٹسمین محمد حفیظ کی قومی اسکواڈ میں واپسی ہوئی ہے۔دونوں کھلاڑی جنوبی افریقاکے خلاف ہوم سیریز میں قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ ڈومیسٹک سیزن 21-2020 میں شامل نیشنل ٹی ٹونٹی کپ میں 233 رنز بنانے والے شرجیل خان نے پی ایس ایل 6 کے التواء سے قبل کھیلے گئے 14 میچز میں 200 رنز بنائے ۔ ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان 297 اور کراچی کنگز کےاوپنر بابراعظم 258 رنز بناکر ٹاپ بیٹسمین رہے۔
اس فہرست میں شرجیل خان کا نمبر تیسرا ہے،قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی نے دورہ جنوبی افریقا اور زمبابوے میں شامل 7 ٹی ٹونٹی ، 3 ون ڈے اور 2 ٹیسٹ میچوں کے لیے جس پاکستان ٹیم کا اعلان کیا ہے، اس میں ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر اعتمادکااظہار کیا ہے۔ قومی ٹیسٹ ٹیم میں 20 کھلاڑی شامل ہیں۔ ان 20 میں سے 8 کرکٹرز ایسے ہیں جو تینوں فارمیٹ کے لیے اعلان کردہ اسکواڈ کا حصہ ہیں۔
دورے میں شامل ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل اور ٹیسٹ میچز پاکستان کو ان دونوں فارمیٹ میں اپنی عالمی رینکنگ بہتر کرنے کا موقع فراہم کریں گےجبکہ دورہ جنوبی افریقامیں شامل 3 ون ڈے انٹرنیشنل میچز آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈکپ سپر لیگ کا حصہ ہیں۔ 13 مختلف ٹیموں کے درمیان جاری اس ایونٹ کی 7 بہترین ٹیمیں آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈکپ 2023 میں براہ راست رسائی حاصل کرجائیں گی۔
قومی وائٹ بال اسکواڈ 19 مارچ سے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ٹریننگ کا آغاز کرے گا۔ ان تینوں ٹیموں کے اعلان کے بعد محمد وسیم کو شدید تنقید کا سامنا ہے چیف سلیکٹر کا کہنا ہے کہ وہ ارشد اقبال، محمد وسیم جونیئر اور شاہنواز دھانی نے ڈومیسٹک سیزن 21-2020 میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ان کھلاڑیوں کی محنت کا صلہ ملاہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی پروفیشنل ایتھلیٹ کے لئے سب سے بڑا اعزاز بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے ، یقین ہے کہ دورہ جنوبی افریقا اور زمبابوے کے لیے قومی اسکواڈ میں شمولیت ان ایمرجنگ کرکٹرز کو میدان میں مزید متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دے گی۔
محمد وسیم نے کہا کہ شرجیل خان کی بھی ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں واپسی ہوئی ہے ، اگرچہ وہ ابھی وہاں نہیں پہنچے جہاں ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں تاہم وہ اس سے زیادہ دور بھی نہیں ہیں، انہوں نے حالیہ ڈومیسٹک ٹی ٹونٹی ایونٹس میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں فٹنس میں بہتری اور پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملنا چاہیے۔
محمد وسیم کا کہنا ہےکہ لیگ اسپنر یاسر شاہ بائیں گھٹنے کی انجری کا شکار ہیں، انہیں مکمل صحتیابی کے لیے ابھی مزید 6 ہفتے درکار ہیں، ان کی عدم دستیابی نے زاہد محمود کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے کھول دئیے ہیں جبکہ ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں نائب کپتان شاداب خان کی واپسی کی وجہ سےبھی انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ محمد وسیم نے کہا کہ عماد وسیم کو ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ہم محمد نواز کو ابھی مزید موقع دینا چاہتے ہیں، محمد نواز نے جنوبی افریقا کے خلاف سیریز میں 6.10 کے اکانومی ریٹ سے تین وکٹیں حاصل کیں۔
سیریز کے آخری میچ میں ان کی 11 گیندوں پر 18 رنز کی ناقابل شکست اننگز نےبھی پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔چیف سلیکٹر کا مزیدکہنا ہے کہ بدقسمتی سے عامر یامین، عماد بٹ اورکامران غلام قومی اسکواڈز میں جگہ نہیں بناسکے۔
انہوں نے کہا کہ عامر یامین اور عماد بٹ نےٹی ٹونٹی اسکواڈ میں محمد حفیظ اور شاداب خان کی واپسی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ سلیکشن کمیٹی اس وقت کئی اطراف سے تنقید کی زد میں ہے۔ جنوبی افریقا کا دورہ عام طور مشکل ہوتا ہے لیکن جس طرح کی سلیکشن کی گئی ہے اس سے سلیکٹر کی ہارڈ لائن واضع دکھائی دے رہی ہے۔
کھلاڑیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار نہ کرکے سلیکٹرز نے اپنے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ محمد وسیم بڑے کھلاڑی تو نہیں تھے لیکن بڑے مرتبے پر فائز ہوکر انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔بظاہر کانٹوں کی یہ سیج ان کے لئے مشکلات بڑھا سکتی ہے۔