پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پسماندہ علاقے نیو کراچی میں ایک ایسا محلہ بھی ہے، جہاں ہزاروں سال قبل کی طرح مشین کی بجائے ہاتھ سے کاغذ بنایا جا رہا ہے جس کی ڈیمانڈ ملک بھر میں ہے، کراچی کی کاغذی برادری ہاتھ سے کاغذ بنانے کی صنعت کی موجد ہونے کی دعوے دار ہے۔
ہاتھ سے کاغذ بنانے کے کام کو اب تک زندہ رکھنے والے ندیم مرزا کا کہنا ہے کہ ان کی برادری نے ہاتھ سے کاغذ بنانے کا کام ترک کر دیا ہے اور تمام لوگ جو اس صنعت سے وابستہ تھے وہ اب مشین کے ذریعے کاغذ اور گتہ بنا رہے ہیں جبکہ ہاتھ سے کاغذ سازی کے فن کو میں نے، میرے بھائی اور تین چار گھرانوں نے زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ فن صرف ہمارے خاندان تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
ان کے بڑے بھائی اور اس صنعت سے وابستہ محمد اکرام نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کا تعلق ثمرقند بخارا سے ہے، جو وہاں سے ہجرت کرکے ہندوستان کے علاقے راجستھان میں اسی صنعت سے وابستہ رہے جن کی اولاد تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئی اور انہوں نے ہاتھ سے کاغذ بنانے کے کام کو یہاں بھی جاری رکھا۔
ہاتھ سے کاغذ بنانے کی صنعت کے آغاز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کو چنگیز خان قیدی بناکر چین لے گیا تھا جہاں انہیں ہاتھ سے کاغذ بنانے کی صنعت سے منسلک کردیا گیا۔
واضح رہے کہ چین کی کاغذ کی صنعت دنیا کی سب سے قدیم کاغذ کی صنعت مانی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہاتھ سے بنایا گیا بلوٹنگ پیپر شوگر ملز میں فلٹریشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس پیپر کی وہاں سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔
ہاتھ سے کاغذ بنانے کا طریقہ بظاہر آسان نظر آتا ہے تاہم یہ کافی مشکل اور صبر طلب کام ہے جس کے بعد کاغذ کی صورت میں نتیجہ سامنے آتا ہے۔
ہاتھ سے کاغذ کی تیاری کے لئے سب سے پہلے ہر قسم کا پرانا کاغذ لیا جاتا ہے، اسے پیس کر باریک کر لیا جاتا ہے اور اس میں گندم کا چھلکا ملاکر اسے پانی میں گھول لیا جاتا ہے، جب یہ پانی میں مکس ہوجاتا ہے تو ایک چھلنی کے ذریعے ایک پرت اٹھا لی جاتی ہے جس سے پانی نتھار کر اسے خشک کرنے کے لئے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر اس کی مزید پرتوں کی تہیں لگا دی جاتی ہیں، تھوڑا خشک ہونے پر ہر پرت کو الگ کر کے دیوار پہ لگا کر خشک کیا جاتا ہے، اس عمل سے گزر کر قدیم طرز کا کاغذ تیار ہو جاتا ہے۔
کاغذ تیار ہونے کے بعد مخصوص سائز میں کٹنگ کر کے رم تیار کر لیے جاتے ہیں جو مارکیٹ میں یا شوگر ملوں کو فروخت کر دیئے جاتے ہیں۔