سائنسی شواہدکے مطابق کرئہ ارض پر زندگی کی ابتداء تقریباً 4.2بلین سال پہلے ایک سادہ سیل رکھنے والے Prokaryote یعنی کہ بیکٹیریا سے ہوئی اور یوں کرئہ ارض پر جانداروں کی ارتقاء کے عمل کا آغاز ہوا اور پھر ایک طویل ارتقائی عمل یعنی 4.2بلین سال کی مسافت کے بعد آج دنیا میں تقریباً 10سے 14ملین اقسام کے جاندار موجود ہیں ۔جن میں سادہ سیل رکھنے والے بیکٹیریا سے لے کر پیچیدہ سیل رکھنے والے Eukaryote مثلاً مختلف انواع و اقسام کے پودے، حشرات الارض، سمندروں میں تیرتی آبی حیات، آسمانوں پر اڑتے ہوئے پرندوں سے لے کر زمین پر چلنے والے چوپائے اور بالآخر انسان بھی شامل ہیں۔
سائنسی شواہد کے مطابق ارتقاء کے اس عمل کے دوران تقریباً 99فی صد جاندار مکمل طور پر ناپید(Extinct ) ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیکٹیریا جن سے کرئہ ارض پر زندگی کی ابتداء ہوئی، آج بھی مضبوط ترین صلاحیتوں کے ساتھ سخت ترین ماحول میں بھی موجود ہیں۔کرئہ ارض پر جانے جانی والی جگہوں میں شاید ہی ایسی کوئی جگہ ہو جہاں بیکٹیریا کی موجودگی ممکن نہ ہو۔ بیکٹیریا سمندری سطح سے لے کر سمندروں کی تہوں میں موجود غاروں ( Hydrothermal Vent )میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسے بیکٹیریا کو عام طور پر Extremo Phile کہا جاتا ہے۔
یہ بیکٹیریا اپنی نمو یعنی Growth کو جاری رکھنے کے لیے سخت ترین ماحول، چاہے وہ سرد ہو یا گرم، تیزابی ہو یا نمکیات زدہ خود کو اس ماحول کے مطابق تیار کرلیتے ہیں۔لہٰذا چاہے انٹارٹیکا جیسے برفانی سمندر ہوں یا سمندری آتش فشاں( Submarine Volcano) یا تیزابی جھیلیں ہوں، یہ تمام سخت ترین مقامات بھی بیکٹیریا کی نشوونما کو روکنے سے قاصر ہیں۔ یہ سمندر میں رہنے والے بیکٹیریا ایک طرف تو سمندری حیاتیات میں بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں، مگر ساتھ ہی ان میں کئی بیکٹیریا سمندری جانداروں اور انسانوں کے لیے خاصے مفید ہیں۔
مثلاً Vibrio fischeri نامی بیکٹیریا جو کہ سمندری جانداروں کے جسم پر موجود ہوتا ہے، ایک خاص قسم کا انزائم Luciferase بناتا ہے جو کہ اندھیرے میں جگنو کی طرح روشنی پیدا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بیکٹیریا کو Biolumiscent بیکٹیریا بھی کہا جاتا ہے۔ بیکٹیریا کے اس انزائم کو کاسمیٹکس صنعت میں چہرے کو چمک دار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دیگر دوسرے بیکٹیریا اور ان کے انزائم کو دوائوں کی تیاری اور جینیاتی ریسرچ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
سائنسی مشاہدات کے مطابق کرئہ ارض پر موجود سخت سے سخت ماحول میں بھی بیکٹیریا اپنی نمو کو جاری رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ غذائی قلت کے دوران بیکٹیریا خود کو Spore کی شکل میں تبدیل کرلیتے ہیں اور موافق حالات میں اپنی نمو پھر سے شروع کردیتے ہیں۔
سمندر کی طرح سطح زمین پر بھی چاہے ریگستان کی گرم ترین ریت ہو، پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیاں، سیاہ چن جیسی ٹھنڈی ترین پہاڑیاں، زمین سے پھٹنے والا آتش فشاں ہو، لہلہا تے باغ اور کھیت ہوں، ان سبھی جگہوں پر بیکٹیریا بلاشبہ ہمارے ماحولیاتی نظام کے توازن کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور آج کل نہ صرف ماہرین خرد حیاتیات "Microbiologist" بلکہ دیگر شعبوں کے سائنسدان بھی ان سخت ترین ماحول میں نموپانے والے بیکٹیریا کی خصوصیات سے مستفید ہورہے ہیں۔ مثلاً متعدد قسم کے بیکٹیریا کو کیمیکل انڈسٹریز سے خارج ہونے والے مضرصحت کیمیائی مادّوں کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
جب کہ متعدد بیکٹیریا کے خارج کردہ انزائم کو انڈسٹریز میں مضرصحت کیمیائی اجزاء کی جگہ پر بھی استعمال کیا جارہا ہے جیسے کہ کئی بیکٹیریا کے انزائم کو اعلیٰ قسم کے (Detergent) کی تیاری، Synthetic Fibers کی تیاری اورPesticide وغیرہ کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔یہی نہیں بلکہ کئی اقسام کے بیکٹیریا ایتھنول Ethanol یعنی Viofuel بھی تیار کرتے ہیں اور اس طرح بیکٹیریا کا کردار گرین بائیو ٹیکنالوجی میں سب سے اہم ہے ۔دیگر شعبوں کی طرح زراعت میں بھی بیکٹیریا کا کردار بہت اہم ہے۔
یوں تو ماہرین اب تک پودوں میں بیماری پیدا کرنے والے کئی بیکٹیریا دریافت کرچکے ہیں، مگر ساتھ ہی بیکٹیریا کی کئی ایسی اقسام بھی دریافت ہوئی ہیں جو کہ نہ صرف پودوں کے لیے کئی خاص قسم کی غذا تیار کرتے ہیں بلکہ مٹی میں موجود پیچیدہ غذائی اجزاء کو سادہ غذائی اجزاء میں تبدیل کرکے پودوں کو غذا فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پودوں کو کئی قسم کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اس قسم کے بیکٹیریا کو PGPRیعنی "Plant Growth Promoting rhizobacteria'' کہا جاتا ہے۔
"Bacillus thuringiensis" نامی بیکٹیریا جو کہ ایک خاص قسم کا زہر "Toxin" پیدا کرتا ہے جو کہ پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو مارنے میں استعمال کیا جاتا ہے اور اب بیکٹیریا کی اس "Toxin" کی Gene کو کئی پودں مثلاً مکئی، آلو، روئی اور تمباکو کے genome میں Clobe کردیا جاتا ہے اور یوں یہgenetically engineered plant خود کو کیڑے مکوڑوں کے حملے سے محفوظ رکھتے ہیں اور یوں کسان کو کیمیائی مادّوں سے پاک اور صحت مند فصل حاصل ہوتی ہے۔
زراعت کے علاوہ کئی اقسام کے بیکٹیریا جن میں lactococcus, streptococcus and lactobacillus سرفہرست ہیں۔ بیکٹیریا نہ صرف کرئہ ارض پر موجود سمندر، ہوا اور سطح زمین پر موجود ہوتے ہیں ۔بلکہ انسانوں کا بھی براہ راست بیکٹیریا سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
جہاں ایک طرف بیکٹیریا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں جن میں ٹی بی، ٹائیفائیڈ، طاعون، ہیضہ، گردن توڑ بخار اور تشنج سے لے کر آنتوں میں نہ صرف السر بلکہ آنتوں کے مہلک ترین کینسر کا بھی سبب بنتے ہیں، وہیں یہ جراثیم کئی طرح کی ویکسین تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اقسام کے بیکٹیریا ایسے خاصmetabolites بھی خارج کرتے ہیں جن کو کئی بیماریوں یعنی انفیکشنز میں اینٹی بائیوٹکس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مثلاً streptomycesنامی ایک بیکٹیریا اہم اینٹی بائیو ٹکس بناتا ہے جو کہ کئی اقسام کے بیکٹیریا کے انفیکشن کے خلاف انتہائی موثر دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
بیکٹیریا کے پیدا کردہ metabolitesکو سرطان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں سائنسی تجربات جاری ہیں۔ اسی طرح E-coli نامی بیکٹیریا کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انسولین بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جو کہ تمام انسولین کے مقابلے میں زیادہ موثر ہے۔
بیکٹیریا انسانی جسم کے کئی اعضاء خصوصاً جلد، منہ، ناک، کان معدے کی نالی میں غیر مضر بیکٹیریا یعنی نارمل فلورا Normal Flora) )کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ نارمل فلورا انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کے جسم کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہونا شروع کردیتے ہیں اور ایک طرح سے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ نارمل فلورا اپنی جگہ کسی بھی بیرونی اور خطرناک جراثیم کو دینےسے گریز کرتے ہیں۔ اور ان بیرونی بیکٹیریا کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں انسانی جسم بغیر کسی دوا کے خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
سائنسی شواہد کے مطابق انسانی معدے میں موجود بیکٹیریا دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔جب کہ ان نارمل فلورا کے توازن میں بگاڑ انسان میںاسٹریس ،بے چینی اور ڈپریشن کو بڑھاتا ہے۔انسانی جسم میں موجود نارمل فلورا ہوں یا بیماری پھیلانے والے بیکٹیریا، دونوں ہی کا استعمال فرانزک سائنس میں بھی بہت اہم ہے۔ پچھلے چند برس میں فرانزک سائنسدانوں نے جائے وقوع پر بیکٹیریا کی موجودگی سے نہ صرف مقتول کی وجہ موت، جرم کا وقت اور جگہ کا بخوبی اندازہ لگا کر بیکٹیریا کو فرانزک ٹول یعنی جرم جاننے کے آلے کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ 2001ء میں سائنٹیفک رپورٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ میں سائنسدانوں نے بتایا کہ کسی بھی سخت ترین ماحول میں رہنے والے بیکٹیریا عام ماحول میں رہنے والے بیکٹیریا کے مقابلے میں تیزی سے ارتقاء کے عمل سے گزرتے ہیں۔ یہاں اس امر کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ باوجود جدید ترین ٹیکنالوجی کے آج بھی دنیا بھر کے سائنسدان اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود کرئہ ارض پر موجود صرف ایک فیصد بیکٹیریا کے متعلق معلومات حاصل کر سکیں ہیں۔
بیکٹیریا صرف کرۂ ارض پر ہی موجود نہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں سے خلائی سائنسدانوں نے بھی خلاء میں تقریباً 55قسم کے بیکٹیریا کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ حال ہی میں ناسا کے سائنسدانوں نے خلاء میں کچھ مفید اور انتہائی انوکھے قسم کے بیکٹیریا کی موجودگی کا پتا لگایا ہے۔
بیکٹیریا کی خلاء جیسے انتہائی مختلف اور سخت ماحول میں موجودگی، ان کے اندر کسی بھی ماحول میں خود کو نمو کرنے کی صلاحیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ بیکٹیریا کی خلاء میں موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نہ صرف کرئہ ارض بلکہ کائنات کے دیگر سیاروں میں بھی بیکٹیریا اور دیگر حیات کی موجودگی ممکن ہے۔