’’جدید عہد کے تناظر میں اقبال‘‘ ایک وسیع موضوع ہے جس پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس پر جس زاویے سے بھی بات کی جائے وہ اپنے دامن میں بے شمار نکات کو سمیٹ سکتا ہے۔ ایک تو اقبال خود کثیر الجہات شاعر تھے۔ دوئم یہ کہ خود ’عہد‘ ایک وسیع الذیل اکائی ہے جو لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتی رہتی ہے اور ہرلمحے کے ساتھ اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ کہا بھی گیا ہے کہ آپ ایک دریا میں دوبار قدم نہیں رکھ سکتے۔
اس موضوع کی وسعتوں کا تعاقب کیے بغیر ہم یہاں صرف دو یا تین نکات پیش کریںگے۔ پہلے تو ہم اقبال کو خود اُن کے عہد کے تناظر میں دیکھیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انہوں نے بیسویں صدی کے ابتدائی چار عشروں میں دنیا کو اور مسلمانوں کے کوائف کو اور خاص طور سے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کو کس نظر سے دیکھا۔ مشرق ومغرب کے اُن کے مشاہدات اور اُن کے مطالعہ نے اُن کے فکری بیانیے کو کس طرح مرتب کیا اور ان کے خیالات کو ایک فلسفیانہ پیکر فراہم کیا۔
علی عباس جلال پوری یہ بات بہت وضاحت سے بیان کر چکے ہیں کہ اقبال ایک فلسفی کے بجائے ایک متکلم کیوں قرار دیے جانے چاہئیں۔ اقبال کسی فلسفی کی طرح ایک مکمل نظامِ افکار پیش کرنے کے بجائے افکار کی دنیا کے اپنے سفر میں فلسفے سے معاونت حاصل کرتے ہیں اور اپنے بہت سے تصورات کو فلسفیانہ اساس کے ساتھ ہمکنار کرتے ہیں۔
اقبال کی ایک متکلم ہونے کی حیثیت اُ سی طرح اُن کی ضرورت تھی جس طرح یہ سر سید اور انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے کئی اور ہندوستانی مسلم مفکرین کی ضرورت تھی۔ یہ سب اہلِ فکر ایک بڑے تضاد کو حل کرنے میں سرگرداں تھے۔ یہ تضاد مشرق اور مغرب کا تضاد تھا اور یہی اُن کے نزدیک اُن کے عہد کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔
اقبال نے اس تضاد کو حل کرنے کی اپنی جداگانہ کوشش کی۔ اُن سے ذرا قبل اور خود اُن کے زمانے میں برصغیر کی مسلم فکر کے جو دھارے نمایاں ہوتے تھے وہ دو انتہائوں کی نمائندگی کرنے تھے۔ ایک طرف مغرب سے مرعوبیت کا رجحان تھا جبکہ دوسری انتہا پر مغرب کی ہر چیز کی مذمت پائی جاتی تھی۔مغرب سے مرعوب ہونے والوں میں سر سید پیش پیش تھے۔ جبکہ مغرب سے متنفر رجحان کی نمائندگی اکبر الہٰ آبادی کے یہاں ہو رہی تھی۔ اقبال ان دونوں دھاروں کے بیچ میں ایک اور دھارے کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن ایسا کرتے وقت وہ اپنے قدم تو مشرق میں جمائے رکھتے ہیں لیکن خیالات وافکار کی حد تک مغر ب سے استفادہ سے بھی احتراز نہیں کرتے۔ البتہ وہ کلی طور پر نہ تو مغرب کی تائید کرتے ہیں اور نہ ہی اُس مشرق کی، جس کا وہ خود کو وارث تصور کرتے ہیں۔ وہ نہ ابلۂ مسجد بننا چاہتے ہیں، نہ تہذیب کا فرزند بننا اُن کو گوارا ہے۔ اقبال کی اس ذہنی کشمکش کا سبب کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انہوں نے مغرب کو کس طرح سمجھا اور مغرب کو کیا جانا۔ایک شعر میں وہ خود کہتے ہیں ؎
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
اقبال نے مغربی تہذیب پر تنقید کرتے ہوئے بیسیوں اشعار لکھے ہیں۔ ان سب کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے مادّی پہلوئوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ وہ اس تہذیب کی داخلی حرکیات اور اس کے تاریخی ارتقا پر غور کرنے سے زیادہ اس کے ظاہری پہلوئوں پر تنقید کو اہمیت دیتے ہیں اور ایسا کرتے وقت اُن کی نظر زیادہ سے زیادہ اس تہذیب کے مادّی پہلوئوں تک ہی جا پاتی ہے۔
’’افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش‘‘
وہ مغربی جمہوریت کے بھی شاکی ہیں ؎
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی وتقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
اقبال کے مطالعۂ مغرب میں اگر اُس کے مادّی پہلو زیادہ نظر نواز ہوتے ہیں اور مغرب کے روحانی آسودگی فراہم کرنے والے عوامل، اُس کے تخلیقی جوہر، اُس کی جمالیات، یہ چیزیں زیادہ نظر نواز نہیں ہوتیں، تو مشرق پر نظر ڈالتے وقت اُن کی نگاہیں صوفی وملّا، فقیہا نِ حرم اور پیران حرم کی بالادستی پر افسوس کرکے اپنا کام ختم کردیتی ہے۔ لیکن مشرق کی یہ روحانی کمزوریاں خود کن مادّی اسباب کا نتیجہ تھیں یہ بھی ہمیں اقبال سے زیادہ تو جہ حاصل کرتے نظر نہیں آتے۔
وہ مذہبی فکر میں پائے جانے والے جھول اور کمزوریوں کو مذہبی فکر ہی کی تشکیل نو سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت انہوں نے مغرب کے بعض مفکروں سے اور چند ایسے تصورات سے استفادہ کیا جو اُس وقت مغرب میں مقبول تھے۔ چنانچہ وہ خانقاہی نظام، تقلید پرستی اور بے عملی کی جگہ حرکت اور تسخیر کائنات کا پیغام دیتے ہیں۔
وہ اجتہاد کی بھی بات کرتے ہیں۔ جس سے ان کے خیال میں الٰہیات کی تشکیل جدید کا سامان ہوسکتا ہے۔ اقبال مغربی اقوام کی قوت عمل کے معترف ہیں، خاص طور سے وہ انگریز قوم کی ایک اہم خوبی کا ذکر کرتے ہیں جس کو انہوں نے انگریز کی حسِ واقعات قرار دیا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ مغرب کے تہذیبی کل کو مغرب کے لیے نقصان دہ تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
اُس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازئہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
اقبال نے مشرق ومغرب کے اپنے اس خلجان کا حل کچھ اس طرح نکالا کہ انہوں نے ایک ایسا تصور وضع کیا جس کو آل احمد سرور نے اقبال کی ’نئی مشرقیت‘ کا نام دیا تھا۔
اقبال کا ایک اور تصور جس نے ہندوستان کے اس ابھرتے ہوئے اور تعلیم یافتہ مسلم متوسط حلقوں کو بہت متاثر کیا وہ اُن کا خودی کا تصور تھا۔ اس تصور میں خود شناسی، اور خود آگاہی، کا پیغام پنہاں تھا۔ یہ اُس وقت کے مسلم معاشرے کی انفعالی اخلاقیات کے برعکس، فرد کی آزادی اُس کی بے خوفی اور بہادری کے امکانات کی طرف اشارہ کرتاتھا۔ عائشہ جلال نے خودی کے اس تصور کو اجتماعی خود مختاری کے تصور سے جوڑتے ہوئے ہماری تحریک آزادی کو Selfسے Sovereigntyتک کا سفر قرار دیا ہے۔
اقبال کی فکر، اُن کا فلسفیانہ سانچہ، اُن کی نئی مشرقیت قیامِ پاکستان سے قبل کے برصغیر کے مسلمانوں کی سماجی وسیاسی صورتحال کے تناظر میں ایک بڑا مفید اور کارآمد تصور تھی۔ نظریات ظاہر ہے کہ اوپر سے نہیں اترتے وہ انسانی معاشروں ہی میں تشکیل پاتے ہیں اور انسانی ذہنوں ہی میں ان کی آبیاری ہوتی ہے۔
جو نظریات اور تصورات معاشرتی صورتحال پر منطبق ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا وہ سماجی کوائف میں اپنی بنیادیں رکھتے ہیں وہی اُس عہد کے مقبول اور نمائندہ نظریات اور تصورات ہوتے ہیں۔ آج اقبال کے افکار کی کیا افادیت ہے، اس کو جاننے کے لیے ہمیں گفتگو اُن کے افکار سے شروع کرنے کے بجائے آج کی دنیا اور اُس کے حالات اور اُس کے تضادات سے شروع کرنی چاہیئے۔
بظاہر یہ ایک بہت بدلی ہوئی دنیا ہے۔ ہم بہت تیزی سے عالمیانے سے ہمکنار ہورہے ہیں۔ ریاستوں کی سرحدیں فوجیں نہیں ڈھا رہیں، بلکہ معیشت کا کارواں اُن کو بے اثر بنا رہا ہے۔ ذرائع مواصلات نے ملکوں، شہروں، قصبوں اور دیہات کی تخصیص کو بے اثر کر دیا ہے۔ فاصلے ختم ہوچکے ہیں اور ماضی کی تقسیمیں اپنی افادیت کھو تی جارہی ہیں۔ مشرق عین مغرب کے اندر جابسا ہے۔ مغرب ہمارے شہروں، ہمارے بازاروں حتیٰ کے ہمارے گھروں میں پہنچ چکا ہے۔تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ مغرب کی ’جنگی صنعت‘ کی منفعت کا سامان بہم کرے تو کرے، تہذیبوں کے تصادم کا تصور مجذوب کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
تہذیبیں جس طرح ہم آغوش ہور ہی ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔ عالمگیریت کے اس سیل رواں میں جہاں بہت سی چیزیں بہہ چکی ہیں وہیں بہت سے نئے تضادات بھی جنم لے رہے ہیں۔ایک کوشش یہ بھی ہے کہ ان تضادات کو مذہبی رنگ دیا جائے۔ ایسا کرنے کے خواہش مند، افراد بھی ہوسکتے ہیں اور حکومتیں اور ریاستیں بھی۔ لیکن ان بظاہر مذہبی اور فرقہ وارانہ مناقشوں کی گہرائی میں اتر کے دیکھیں تو یہاں بھی عالمیانے کے مادی تضادات کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ عراق پر حملہ کرکے دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کا پیغام دینے والا امریکا اور یورپ دراصل پورے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ پھر سامراج کا ریلا شام کی طرف بڑھا۔ اس کے بعد داعش کی پیدائش ہوئی اور اب غلطی در غلطی کے اس عمل کے اثرات یورپ میں پہنچ رہے ہیں۔
سو آج کا منظر نامہ جن عوامل سے مل کر بنا ہے۔ ان کو سمجھنا اپنے عہد کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم اپنے عہد کو سمجھ پائیں گے تب ہی ہمارے لیے اُس نظری اور نظریاتی سانچے کے عناصر ترکیبی کے بارے میں سوچنے کا موقع نکلے گا جو آج کی جدل اور آج کے عہد کا موزوں نظریاتی بیانیہ قرار دیا جاسکے گا۔ اس نظریاتی بیانیے میں اقبال کے گزشتہ صدی کے بیانیے کا بھی کچھ حصہ شامل ہوسکتا ہے لیکن سچی بات ہے کہ جس طرح دو ڈھائی صدیوں تک کرہ ارض پر حکمرانی کرنے والا قومی نظریہ آج ایک بڑے قالب میں ڈھلنے کا منتظر نظر آتا ہے۔
جس طرح ہندوستان میں اسلامی جدیدیت چند عشروں تک مسلمانوں کے ایک طبقے کی ضروریات کی تکمیل کے بعد اب تاریخ کی کسی آرام گاہ میں محواستر احت ہے اور جس طرح مشرق ومغرب کی آویزش کے پچھلی صدی کے ہمارے بیانیے، اب ہماری کچھ زیادہ مدد کرتے نظر نہیں آتے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج ہم جس عہد میں رہ رہے ہیں اور تضادات کی جس دنیا سے ہمارا سروکار ہے وہ ایک نئے اور بڑے نظریاتی سانچے، اور ایک نئے آفاقی بیانیے کی ضرورت کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ الجھن صرف اتنی ہے کہ نجانے ؎
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید