شاعر مشرق علامہ اقبال کو21 اپریل 2021 کو دنیا سے رخصت ہوئے 83 برس ہوجائیں گے ان کے حوالے سے خصوصی مضامین نذرِقارئین
ہمارے بعض ترقی پسند نقاد اقبال سے کس حد چِڑتے تھے اور کس طرح ان کے کلام پر بے جا اعتراضات کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مجنوں گورکھ پوری جیسے وسیع المطالعہ اور عالم فاضل نقاد نے بھی اقبال کی شاعری پر ایک عجیب و غریب اعتراض جڑ دیا ۔اپنی کتاب ’’اقبال :ایک اجمالی تبصرہ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری میں ان کے آخری دور میں ایک خطرناک رجحان پیدا ہوگیا تھا اور یہ رجحان، بقول ان کے، ’’عقابیت ‘‘ تھا۔
یہ بقول مجنوں صاحب کے ایک طرح کی فسطائیت یعنی فاشزم (fascism) ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اقبال کی فکر اور بصیرت میں شاہین ، چیتے اور عقاب جیسے ’’سفاک جانوروں ‘‘نے مرکزی حیثیت اختیار کرلی تھی اورا قبال چاہتے تھے کہ انسانوں بالخصوص ’’مرد ِ مومن‘‘ میں بھی یہی پھاڑ کھانے والے جانوروں کی خصلتیں پیدا ہوجائیں۔
ایک اور اعتراض مجنوں صاحب کو یہ ہے کہ اقبال کے ہاں ’’حجازیت ‘‘ کا رجحان ہے۔ سرِ دست چونکہ ہمار ا موضوع اقبال کے ہاں شاہین کی علامت کا استعمال ہے لہٰذا اس ’’حجازیت ‘‘ کے ’’خطرناک ‘‘ رجحان پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔فی الحال ہم اقبال کے ہاں شاہین کی علامت کے استعمال کو دیکھتے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں ہمیں بعض الفاظ اور علامات بار بار نظر آتی ہیں اور شاہین بھی ان میں سے ایک ہے ۔ شاہین سے اقبال کی کیا مراد ہے؟ شاہین میں انھیں ایسی کیا خصوصیات نظر آئیں کہ انھوں نے بار باراس کا ذکر کیا اور خاص طور پرہمارے نوجوانوں کو شاہین صفت دیکھنے کی تمنا کی ؟
دراصل اقبال کے ہاں شاہین یا عقاب ایک علامت اور ایک رمز ہے ۔شاہین ایک تشبیہ یا استعارہ ہے۔لیکن یہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے بلکہ اقبال کے نظام ِ فکر میں اس کی ایک خاص حیثیت ہے۔ چونکہ اقبال مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو سخت کوشی ، غیرت مندی اور خودداری کی تعلیم دیتے ہیں لہٰذا ان پر زور دیتے ہیں کہ اپنے اندر بلند پروازی ، عالی ہمتی، بلند حوصلگی ، استغنا اور بے نیازی کی صفات پیدا کریں۔ اقبال کے نزدیک شاہین ایک ایسی تشبیہ ہے جس سے یہ ساری صفات واضح ہوجاتی ہیں کیونکہ شاہین میں یہ تمام صفات موجود ہیں ۔
خوش قسمتی سے اقبال نے خود ہی اپنے ایک خط میں شاہین کی علامت کی وضاحت کردی تھی ۔ یہ خط مولوی ظفر احمد صدیقی کے نام ہے اور شیخ عطاء اللہ (مختار مسعود کے والد) کے مرتّبہ مجموعۂ مکاتیب ِ اقبال میں موجود ہے جو ’’اقبال نامہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ یہاں شاہین کی وضاحت اقبال کے الفاظ میں لفظ بلفظ پیش ہے :
’’شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ، اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں ۔(۱) خوددار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲)بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا ۔(۳)بلند پرواز ہے۔ (۴)خلوت پسند ہے ۔ (۵)تیز نگاہ ہے ۔ ‘‘(اقبال اکیڈمی ، لاہور، طبع ِ نو ، ۲۰۰۵ء، ص ۱۹۴)۔
یہاں فقر سے اقبال کی مراد غربت اور بے مائیگی یا ترک ِ دنیا نہیں ہے بلکہ وہ اس استغنااور بے نیازی پر زور دیتے ہیں جس کے سبب دل سے دنیا کی حرص و طمع نکل جاتی ہے اور اہلِ اقتدار کے حشم و جاہ سے بے نیازی پیدا ہوتی ہے اور اسی بے خوفی اور بے نیازی سے بلند تر منازل کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ ان صفات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبال کے کچھ اشعار اور مصرعے ملاحظہ کیجیے :
گزر اوقات کرلیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کار ِ آشیاں بندی
……٭٭……٭٭……٭٭……
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
……٭٭……٭٭……٭٭……
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
……٭٭……٭٭……٭٭……
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
کرگس یعنی گدھ مردار کی تلاش میں رہتا ہے لیکن شاہین خوددار اور بلند حوصلہ ہے ، اسے مردار کھانا گورا نہیں ، وہ اپنا شکار خود کرتا ہے چاہے اس کے لیے اسے کتنی ہی پرواز کرنی پڑے۔ ’’بال ِ جبریل ‘‘ میں ایک نظم ہے جس کا عنوان ہی ’’شاہیں ‘‘ہے ۔ اس کے چند اشعار میں شاہین کی صفات کا تذکرہ دیکھیے:
کِیا میں نے اس خاک داں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
ہواے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربت ِ غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
اقبال نے قوم کے جوانوں کو خصوصی پیغام دیا ہے اور انھیں’’ شاہین بچہ ‘‘کہا ہے۔ وہ نوجوانوں کو سخت کوشی اور جہد و کوشش کی تعلیم دیتے ہیں اوراپنی نظم ’’نصیحت ‘‘میں شاہین کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب ِ سالخوردہ
اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخ ِ بریں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ ِ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
گویا اقبال کبوتر کے لہو کے حصول اور اسے ’’پھاڑ کھانے ‘‘کی تعلیم نہیںدیتے بلکہ خون گرم رکھنے کے لیے جھپٹنے پر زور دیتے ہیں ۔ یہ سفاکی نہیں بلکہ جوش، سرگرمی، حرکت اور عمل کرنے کی تعلیم ہے ۔عزیز احمد ’’اقبال : نئی تشکیل ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اقبال نے شاہین کی علامت کو سیاسی مفہوم میں بہت کم استعمال کیا ہے اور اکثر اس سے مراد نوجوان ہیں ، وہ دعائیہ انداز میں نوجوانوں میں انقلابی خصوصیات کی نشو ونما کی تمنا کرتے ہیں ۔خدا سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں :
جوانوں کو مری آہ ِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
کاش یہ نور ِ بصیرت ہمارے نوجوانوں کے علاوہ ہمارے نقادوں کو بھی نصیب ہو تاکہ وہ شاہین جیسی علامات پر معروضی انداز سے غور کرسکیں۔