رواں ماہ کے اوئل میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے سنیئر سیاستدان صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے وزرات واپس لیے جانے کے بعد صوبے کا سیاسی درجہ حرارت جو اچانک بڑھ گیا تھا تاہم اب سیاسی ماحول میں ویسی گرمی نظر نہیں آرہی لیکن سنجیدہ سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ عید الفطر کی وجہ سے ماحول کسی حد تک معمول پر آگیا ہے ان حلقوں کی رائے ہے کہ صوبے میں شائد مزید تبدیلیاں ممکن ہیں جن میں کوئی بڑی تبدیلی بھی آسکتی ہے تاہم اس وقت صوبے میں کوئی بڑی سیاسی ہلچل بظاہر نظر نہیں آرہی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے گزشتہ دنوں جب گورنر بلوچستان سے استعفیٰ طلب کیا تھا توقع کی جارہی تھی کہ شائد وزیراعظم فوری طور پر صوبے میں نئے گورنر کا تقرر عمل میں لانا چاہتے ہیں مگر گورنر کے نام لکھے جانے والے خط کے کئی روز بعد تاحال اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ، گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یٰسین زئی کو 2018 کے انتخابات کے بعد صوبے کا گورنر مقرر کیا گیا تھا جسٹس (ر) امان اللہ یٰسین زئی نے گزشتہ تین سال کے دوران انتہائی غیرجانبدارانہ انداز میں اپنے فرائض انجام دیئے۔
جبکہ ان کی شخصیت بھی مکمل طور پر غیر متنازعہ رہی ہے ، سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کرتی رہی ہے کہ پی ٹی آئی بلوچستان کی یہ خواہش رہی ہے کہ ملک کے دوسرئے صوبوں کی طرح بلوچستان میں پارٹی کا گورنر ہونا چاہیے تاکہ صوبے میں پارٹی کارکنوں کے مسائل کو وفاق میں زیادہ تیزی سے حل کرایا جاسکے ، وزیراعظم عمر ان خان نے 28 اپریل کو کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا تھا اپنے دورہ کوئٹہ کے بعد گور نر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کو جو خط لکھا تھا اس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران کورونا وائرس کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ سے ذاتی طور پر ملاقات نہیں کرسکا ورنہ میں آپ سے خود بات کرتا۔
خط کے متن میں کہا تھا کہ آپ کے ساتھ کام کرکے خوشی محسوس ہوئی کہ آپ فلاحی ریاست کے قیام اور بلوچستان کے عوام کے مسائل کو دیکھ رہے تھے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں بلوچستان میں نیا گورنر مقرر کرنا چاہتا ہوں اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ مستعفی ہوجائیں ، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خط کے زریعے گورنر بلوچستان سے ان کا استعفیٰ طلب کیے جانے پرپر آئینی ماہرین سمیت سیاسی حلقوں نے بھی تعجب کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم کو گورنر بلوچستان کو اس قسم کا خط تحریر نہیں کرنا چاہیے تھا گو کہ کسی بھی صوبے میں گورنر مقرر کرنے کا اختیار وفاق کا ہوتا ہے تاہم اس کے لئے ایک طریقہ کار طے ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کی رضا مندی سے صدر مملکت گورنر کی تقرری کرتے ہیں۔
اس حوالے سے وفاقی حکومت نے کوئی اقدام کرنا بھی تھا تو اس کے لئے صدر مملکت کے زریعے طریقہ کار کے تحت بات کی جاتی ، وزیراعظم کی جانب سے گورنر بلوچستان سے استعفیٰ طلب کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی پارلیمانی پارٹی کی جانب سے نئے گورنر کے لئے تین نام وفاقی حکومت کو بھجوائے گئے تھے تاہم ان ناموں سے پی ٹی آئی کی جانب سے باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا جبکہ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات آئیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری بھی پارٹی کے ایک پرانے رہنما کو گورنر بلوچستان مقرر کرانے کے لئے کرادار اداد کررہے ہیں۔
جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق صوبے میں کسی سابق ٹیکنوکریٹ کو بھی ممکنہ طور پر گورنر مقرر کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے بعض حلقوں میں صوبے سے ایک سابق سفیر کا نام بھی گردش کررہا ہے، بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے یہ روایت رہی ہے کہ گورنر پشتون رہے ہیں اس حوالے سے اب بھی یہی توقع ہے کہ موجودہ گورنر کی تبدیلی کی صورت میں ترجیحی طور پر نئے گورنر بھی پشتون ہوں گے، سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ شائد اب تک پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان نئے گورنر کے لئے کسی نام پر متفق نہیں ہوئے ہیں کسی ایک نام پر اتفاق کے بعد ہی نئے گورنر کی تقرری شائد ممکن ہوگی تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہی کیا جائے گا۔
این سی او سی کے فیصلے تحت ملک بھر کی طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں سرکاری دفاتر، مارکیٹیں، شاپنگ مال اور تجارتی مراکز کھل گئے ،ٹرانسپورٹ بھی بحال ہو گئی ۔ جبکہ شہر میں تفریحی مقامات،پارکس، تعلیمی ادارے ،شادی ہال، مارکیزاورسیاحتی مقامات تاحکم ثانی بند ہیں جبکہ ہوٹل اور ریسٹورنٹس پر صرف ٹیک اوے کی سہولت میسر ہے ۔یاد رہے کہ این سی او سی کے فیصلے کے تحت ملک بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی رمضان المبارک کے آخری ہفتہ میں لاک ڈوان کیا گیا جس کے خلاف کوئٹہ میں تاجر تنظیموں نے شہر میں سخت احتجاج کیا کوئٹہ کے وسط میں واقع منان چوک پر احتجاج کے ساتھ تاجر تنظیموں نے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ اور ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما و صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی کی تاجر تنظیموں کے احتجاجی دھرنا میں پہنچ کر مسائل کے حل کی یقین دہانی پر تاجروں نے احتجاج ختم کردیا تھا ، تاجر رہنماوں عبدالرحیم کاکڑ اور رحیم آغا کے مطابق کوئٹہ میں رمضان کے آخری ایک ہفتہ لاک ڈاون کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جبکہ گزشتہ سال بھی وعدئے کے باوجود تاجروں کی کوئی مالی مدد نہیں کی تھی۔