• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان چالیس سال سے آگ میں جھلس رہا ہے ـ ۔کبھی روسی افواج حملہ آور ہوئیں، تو کبھی خانہ جنگی چھڑ گئی ،کبھی نیٹو نے حملہ کر دیا تو کبھی مختلف ناموں سے قومی و مذہبی گروپس سامنے آگئے ـ لیکن جب سے طالبان او رامریکہ کے مذاکرات شروع ہوئے ہیں ،جنگ نے ایک الگ شکل اختیار کر لی ہے۔ ـ جن میں چند ایک واقعات کچھ اس طرح سے رونما ہوئے۔ ـاکتوبر 2019کو کابل میں ایک سیاسی شخصیت انجینئر نظر محمد مطمئن پر قاتلانہ حملہ ہوا، حملہ آوروں سے ان کی ہاتھا پائی ہوئی اور بھاگ نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاس کھڑے پولیس والوں سے میں نے مدد طلب کی لیکن وہ تماشہ دیکھتے رہے ـ۔ نومبر میں انکے ساتھی وحید مژد قاتلانہ حملے میں مارے گئے ـ۔ اس کے بعد جمعیت اصلاح کے امیر ڈاکٹر عاطف، پروفیسر اورا سکالر عبدالباقی امین، مذہبی رہنما مفتی نعمان فضلی قاتلانہ حملوں میں مارے گئے ـ۔ یہ وہ شخصیات تھیں جو افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی مخالف تھیں اور امن کیلئے کوششیں کر رہی تھیں ‘ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کابل سے باقی مشہور سیاسی لوگوں نے جان بچانے کی خاطر دیگر ملکوں میں پناہ لے لی۔ ـ یوں خارجی افواج کے خلاف یا امن کیلئے اٹھنے والی آوازیں خاموش ہو گئیں۔ ـ2 نومبر 2020کو کابل یونیورسٹی پر حملہ ہوا ‘ـ حملہ آوروں نے لا ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایاـ اس حملے میں 22طلباو طالبات مارے گئے اور 30کے قریب زخمی ہوئے ـ‘ افغان نیشنل آرمی او این ڈی ایس نے یونیورسٹی کو گھیرے میں لے لیاـ۔ صبح جب صحافیوں کو وہاں کا دورہ کروایا گیا تو وہاں طالبان کا پرچم او ردیواروں پر ’’امارت اسلامی افغانستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لکھے نظر آئے (ایسا اس سے پہلے کسی حملے میں نہیں ہوا تھا)۔ یونیورسٹی کے باہر ایک گروہ پینافلیکس اور پوسٹرز اٹھائے احتجاج کر رہا تھا، جن پر دوحہ معاہدے کو ختم کرنے اور طالبان کے خلاف نعرے درج تھے۔ ـ حکومت نے اس حملے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا جبکہ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور سختی سے مذمت بھی کی ـ۔حملے کے بعد صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین سے داعش کا ایک گروہ پکڑا گیا جس کا سربراہ عادل پنجشیری تھا ـ اس کے علاوہ ابو سعید اعظم، حضرت علی،حمزہ خراسانی بھی پکڑے جانے والوں میں شامل تھے۔ اس گروہ نے اس حملے کا اعتراف کیا۔ 2جنوری 2021کو کابل میں عدالت نے عادل پنجشیری کو سزائے موت سنائی اور باقی مجرموں کو 25 سال قید سنائی۔

ـلیکن یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ 19سالہ جنگ میں طالبان نے مختلف اہداف پر ہزاروں حملے کیے لیکن کابل یونیورسٹی پر حملہ کرنے کے دوران انہیں کیا ایسی ضرورت پیش آئی کہ وہاں اپنا پرچم لے کر گئے؟ اگر یہ حملہ داعش نے کروایا تو وہاں طالبان کا پرچم کون لے کر گیا ؟ اور حملے کے بعد جب اس علاقے کو افغان نیشنل آرمی نے گھیرے میں لے رکھا تھا تو دیواروں پر طالبان کی حمایت میں نعرے کس نے لکھے ؟ راتوں رات دوحہ معاہدے کے خلاف پوسٹرز اور پینا فلیکس کس نے تیار کروائے؟

2 مارچ 2021کی کی شام نمازِ مغرب کے وقت جلال آباد شہر میں ’’انعکاس‘‘ ٹی وی کیلئے کام کرنے والی دو عورتوں کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ـ۔ قتل کے آدھے گھنٹے بعد ہی ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطاالله خوگیانی نے اپنے فیس بک پر حملہ آور کی ایک تصویر شیئر کی۔ اس کا نام ’’قاری بصیر‘‘ بتایا اور اور یہ بھی کہاکہ وہ طالبان کا کارندہ ہے ـ۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ اعتراض شروع کردیا کہ یہ عورتیں مغرب کے وقت قتل ہوئیں جبکہ تصویر دوپہر کی ہے اور قاری بصیر نامی ملزم ہاتھ میں اسلحہ اٹھائے مسکرا رہا ہےـ۔ گورنر کے ترجمان نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی ـ۔ دوسرے دن داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ـ لیکن قاری بصیر کون تھا؟اس نے اعتراف کس کے سامنے کیااور اب کہاں ہے ؟یہ کسی کو نہیں معلوم۔ ـ 15مئی2021کو وزرات داخلہ کے نائب ترجمان حمید روشن نے نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ 5 افراد کا ایک گروہ پکڑا گیا ہے جو بجلی کے کھمبوں کو لینڈ ماینز کے ذریعے تباہ کر رہا تھاـ۔ وزارتِ داخلہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان پانچ ملزموں کی تصویر بھی نشر کی گئی ـ۔ اگلے دن اشرف غنی کے نائب امر الله صالح نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ بجلی کے کھمبوں کو تباہ کرنے کے جرم میں کوئی نہیں پکڑا گیاـ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کس کا بیان درست ہے اور کون غلط بیانی کر رہا ہے؟اگر حمید روشن ٹھیک کہہ رہا ہے تو اس تصویر میں کھڑے لوگ کدھر گئےاور امر الله صالح کو کیا ضرورت پڑی کہ اس معاملے میں دخل اندازی کرے؟چند واقعات جو اس کالم میں ذکر ہوئے ہیں اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ داعش کی کارروائیوں کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر قطر میں جاری مذاکرات کو ناکام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ـ یا اگر مذاکرات ناکام نہ بھی ہوں تو کم از کم عالمی برادری کو باور کرایا جا سکے کہ طالبان اب بھی اعلیٰ تعلیم کے خلاف ہیں۔ ـ وہ طلبا و طالبات،صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں پر حملے کر رہے ہیں اور انفراسٹرکچر، بجلی کے کھمبوں، سڑکوں، اسکولوں اور یونیورسٹیز کو تباہ کرنے میں بھی طالبان کا ہاتھ ہے ‘ـدوسرا افغان عوام کو ان حملوں کے ذریعے سے یہ خاموش پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر مستقبل میں طالبان کسی بھی شکل میں حکومت کا حصہ بن گئے تو وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے ـ تیسرا یہ کہ کسی طرح سے دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ افغانستان میں طالبان کے علاوہ داعش کی صورت میں ایک اور مضبوط تنظیم بھی موجود ہے جو خطے اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے۔ ـ لہٰذا نیٹو افواج کو انخلا کا فیصلہ ترک کر دینا چاہئے۔ ـ چوتھا یہ کہ جب امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہر اس شخص کو ساتھ ملا لیا جو طالبان کا مخالف تھا ـ اس صورت میں وہ جنگجو سردار بھی حکومت کا حصہ بن گئے جو روسی افواج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کا حصہ تھے اور انہوں نے بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا تھاـ اس طرح ایک تو ان کے پرانے جرائم دھل گئے ـ دوسرا وہ حکومت کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے امریکیوں سے لاکھوں ڈالر بٹورے ـ اور طالبان اور القاعدہ کے نام پر اپنے مخالفین کو کچلا، ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں علاقہ بدر کیا اور ذاتی دشمنیوں کا حساب بھی چکتا کیاـ۔ اب اگر ایسی حکومت آتی ہے کہ وہ واقعی افغان عوام کی نمائندہ ہو تو شاید ان لوگوں کو اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے یا ممکن ہے عدالتی مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑے ـ تو یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ایک ایسی حکومت بنے جس کا وہ حصہ نہ ہوں ـ دوحہ میں اب بین الافغان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں ـ ایک طرف طالبان کی ٹیم اپنی شرائط کے ساتھ مذاکرات کی میز پر موجود ہے تو دوسری طرف افغانستان کی حکومت کی طرف سے جو ٹیم بھیجی گئی ہے اس میں حکومت سے زیادہ مختلف گروہوں کے نمائندے شامل لگ رہے ہیں۔ مثلاً ان میں عبدالرشید دوستم، ہزارہ شیعہ، شمالی اتحاد کے مختلف دھڑے، کرزئی اور اشرف غنی کے نمائندے شامل ہیں۔ ان کی سوچ افغانستان کیلئے ایک ملت کی بجائے اپنی تنظیم کے لیے ہے۔ وہ ملکی مفاد کی بجائے تنظیمی مفاد کیلئے کام کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات سرد مہری کا شکار ہیں۔ 2019اور 20میں ننگرہار اور کنڑ جو داعش کا گڑھ سمجھے جاتے تھے طالبان نے شدید جنگ کے بعد انہیں وہاں شکست دے دی۔اب بڑے شہر حکومتی کنٹرول میں ہیں جبکہ مضافات طالبان کے ہاتھ میں ہیں۔بظاہرکوئی ایسی جگہ دکھائی نہیں دیتی جہاں داعش ٹھکانہ بنائے۔اب ان کی پناہ گاہیں کہاں ہیں اور ان کے سہولت کار کون ہیں؟واقعتاً داعش یہ حملے کروا رہی ہے یا ان کا نام استعمال کر کے اپنے اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں؟یہ سوال جواب طلب ہیں ـلیکن ایک اندیشہ جو سب کو لاحق ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ جواب بین الافغان مذاکرات اور ان حملوں کے نتیجے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

(صاحب تحریر افغان صحافی ہیں)

تازہ ترین