• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے کیسز کی تعداد زیادہ، سزاؤں کی شرح انتہائی کم

اسلام آباد (تبصرہ: انصار عباسی) اگرچہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی انسداد بدعنوانی مہم میں توجہ سیاست دانوں پر مرکوز رہی ہے لیکن بمشکل ہی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں کسی کو سزا ملی ہو۔ اگر کوئی ایسا کیس ہے جس میں کسی سیاست دان کو ٹرائل کورٹ کی سطح پر سزا سنائی گئی ہو، تو ایسے معاملات میں بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی سطح پر سزائیں برقرار نہیں رہ پائیں۔

کئی سینئر سیاست دانوں کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جن میں سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزیر وغیرہ شامل ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے، ان کیخلاف ریفرنس دائر کیے گئے اور کچھ کیسز میں احتساب عدالتوں نے اِن سرکاری عہدیداروں کیخلاف فیصلے بھی سنائے لیکن بمشکل ہی کوئی فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی سطح پر برقرار رہ پایا۔

دی نیوز نے نیب کے ترجمان سے مسلسل سوال کیا ہے کہ ایسے سیاست دانوں کے نام بتائیں جن کی سزائیں ادارے کے قیام کے بائیس سال میں سپریم کورٹ کی سطح پر برقرار رہی ہوں۔ تاہم، یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

تاہم، نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے پاس اس ضمن میں بتانے کیلئے زیادہ کچھ نہیں۔ نیب کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جن کیسز کا ذکر موجود ہے ان میں چند سیاست دانوں کے نام ہیں جن کی ’’موجودہ حیثیت‘‘ نیب کے اپنے دعووں کے مطابق ’’مجرم‘‘ کی کیٹگری میں آتی ہے۔

ان ’’مجرم‘‘ سیاست دانوں میں سابق وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ اور سابق رکن قومی اسمبلی اسلام الدین شیخ ہیں۔ نیب کے ذرائع کے مطابق، سیاست دانوں کیخلاف تمام کیسز کمزور یا سیاسی طور پر قائم کردہ نہیں تھے۔ کئی مثالیں ایسی ہیں جن مین بیورو کو حکم دیا گیا کہ دوستانہ استغاثہ (فرینڈلی پراسیکوشن) کے ذریعے کیس ہار جائو یا پھر ادارہ اسلئے کیس ہار گیا کہ انوسٹی گیشن ٹھیک طرح سے نہیں کی گئی یا پھر استغاثہ نا اہل یا اس میں دم نہیں تھا۔ عدالتوں حتیٰ کہ عظمت شیخ کمیشن سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نیب کو سیاسی جوڑ توڑ (پولیٹیکل انجینئرنگ) کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

مشرف نے اپنے فوجی دور میں نیب کو اپنے سیاسی فائدوں کیلئے بھرپور انداز سے استعمال تو کیا لیکن آخر میں درجنوں سیاست دانوں بشمول پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لوگوں کو این آر او دینا پڑ گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں میں دیکھا گیا کہ کس طرح ہائی پروفائل ملزمان دوستانہ استغاثہ کی مدد سے بری ہوگئے۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں نیب پر سیاسی جوڑ توڑ کا الزام ہے تاکہ حکمران جماعت کو فائدہ پہنچایا اور اپوزیشن کو نشانہ بنایا جا سکے۔ نیب پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ کئی اپوزیشن رہنمائوں پر جعلی مقدمات بنا رہا ہے، ان رہنمائوں کی اکثریت ضمانت پر عدالتوں سے رہا ہو چکی ہے۔

کئی رہنمائوں کو ضمانت پر رہائی دیتے وقت عدالتوں نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر ان افراد پر مقدمات قائم کرنے کی وجہ کیا تھی، عدالتوں نے نشاندہی کی ہے کہ نیب کو سیاسی جوڑ توڑ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی نیب کی بدنیتی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم، نیب کی اعلیٰ انتظامیہ متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ ادارہ قانون کے مطابق کام کر رہا ہے اور ثبوتوں کی بناء پر مقدمات درج کر رہا ہے۔

نیب چیئرمین اور بیورو کے ترجمان کہتے ہیں کہ وہ کیسز دیکھتے ہیں چہرے نہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ نیب گزشتہ تئیس سال سے کام کر رہا ہے لیکن کرپشن کو روک نہیں پایا کیونکہ کوئی بڑی مچھلی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ کوئی ملک کرپشن کا خاتمہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

ان کا اصرار تھا کہ ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہر شخص قانون کو جوابدہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں لیکن طاقتور قانون کے نیچے نہیں آتا، ایسے ملک ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کرپشن کیخلاف چین کی کامیاب مہم کا ذکر کیا اور کہا کہ چین نے کرپشن میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دیں، کرپشن پر اس صوروت قابو پایا جا سکتا ہے کہ جب اعلیٰ ترین مقامات پر بیٹھے افراد کیخلاف اقدامات کیے جائیں جیسا چین میں ہوتا ہے۔ جس دن وزیراعظم عمران خان نے یہ بات کہی، چیئرمین نیب نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب کیخلاف منظم اور جارحانہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ایسے لوگ نیب قانون پر تنقید کر رہے ہیں جنہیں آئین کا علم نہیں۔

تازہ ترین