انسان بھی عجیب شے ہے کہ جن عقائد و مذاہب وغیرہ کے لئے جان کی تک بازی لگا دیتا ہے ان پر عمل نہیں کرتا۔ مثلاً عیسائیت میں تھپڑ کھانے کے بعد جوابی طور پر تھپڑ مارنے نہیں بلکہ دوسرا گال آگے کر دینے کی ہدایت ہے لیکن تاریخ دیکھیں، ایک دوسرے کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ گزشتہ دونوں ورلڈ وارز کے میجر پلیئرز کون تھے؟بدھ مت دیکھ لیں . . . . . . کیڑوںمکوڑوں تک کی زندگیاں بھی محترم ہیں لیکن میانمار میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ اسی طرح گیتا کا مطالعہ کریں تو نریندر مودی سکول آف تھاٹ کا وجود ہی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ ہندوتوا کے نام پر ہی اس کی اصل تعلیمات کے نہ صرف خلاف جا رہا ہے بلکہ بری طرح مسخ بھی کر رہا ہے۔ خود ہمارے ہاں جب خلافت کا عظیم ترین ادارہ ملوکیت میں تبدیل ہوا تو سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہم نے پیچھے پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کا ایک عضو زخمی ہو تو پورا جسم اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن عملاً . . . . . .الامان الحفیظ۔ بنو امیہ کی آمد تو چھوڑیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ 747ء میں جب عباسیوں نے ان کا تختہ کردیا تو ان کی اینٹ سے اینٹ تو بجنی ہی تھی، صرف ایک واقعہ پر غور کریں جسے چاہیں تو مکافات بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک عباسی سپہ سالار نے سربرآوردہ امویوں کو جو معزول ہو چکے تھے، ایک ضیافت میں مدعو کیا اور دوران ضیافت ہی سب مہمانوں کو تہہ تیغ کرڈالا اور ان میں سے بعض ابھی دم توڑ ہی رہے تھے کہ ان کے تڑپتے ہوئے جسموں پر چمڑے کے دستر خوان بچھا کر کھاناتناول فرمایا گیا۔ پہلا عباسی خلیفہ خود اپنے آپ کو ’’سفاح‘‘ کہتا تھا جس کے معنی خوںریز کے ہیں اور پھر یہی لفظ اس کا لقب بن گیا۔ تاریخ اسلام میں ہم پہلی بار دیکھتے ہیں کہ ’’خلیفہ‘‘ کی نشست کے پہلو میںاک کھال بچھائی جاتی ہے جس پر جلاد بیٹھتا ہے۔ یہ کھال ’’مسند خلافت‘‘ کا جزولاینفک بن گئی۔اگرچہ عباسی خلفاء شمالی افریقہ یا اندلس کو کبھی اپنے زیر اقتدار نہ لاسکے لیکن وہ دنیائے اسلام کے مشرقی حصہ پر 500 سال تک حکمرا ن رہے۔ یہاں تک کہ 1258 میں اس خاندان کے 37 ویں خلیفہ کو منگولوں نے تباہ وبرباد کرکے خاک و خون میں نہلا دیا لیکن دوسری طرف اسی زمانہ میں یعنی خلفائے عباسیہ میں ہی دنیا نے اسلامی تمدن کے عہد زریں کا نظارہ بھی دیکھا۔ بغداد کی تخلیق و تعمیر بھی عباسیوں نے ہی کی تھی۔ یہ ایک انتہائی دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ چار سال تک دس لاکھ مزدور اور معمار کام کرتے رہے تو تہذیب و تمدن، جمال و جلال کا یہ شہکار وجود میں آیا۔ شکل کے اعتبار سے بغداد ایک مدور شہر تھا اس لئے اس کا نام ’’المدورہ‘‘ رکھا گیا۔ ایوان خلافت کے پہلو میں جامع مسجد کھڑی تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس پر ایک آدمی کا مجسمہ تھا جو ہاتھ میں برچھی تھامے گھوڑے پر سوار تھا۔خلیفہ ہارون الرشید (786ء۔809ء) کے زمانہ میں بغداد کی تعمیر کو ابھی 50 سال بھی نہ ہوئے تھے جب یہ شہر دولت کا عالمی مرکز اور بین الاقوامی شہر بن چکا تھا اور پوری دنیا میں اس کا جواب نہ تھا۔ اب ایک طرف خلفائے راشدین کی سادگی، بوریا نشینی کو دھیان میں رکھتے ہوئے منگولوں کے ہاتھوں مٹنے والوں کی شان و شوکت کی ایک جھلکی۔ فلپ حیٹی لکھتا ہے:’’خلیفہ کی مسند نشینی، شادی، غیر ملکوں کے سفیروں کی باریابی پر دربار کی دولت اور جاہ و جلال کا بھرپور مظاہرہ ہوا کرتا تھا۔ خلیفہ مامون نے اپنے وزیر کی 18سالہ بیٹی بوران سے شادی کی جس کا جشن 835ء میں منایا گیا۔ دولہا دلہن کو طلائی فرش پر بٹھایا گیا جو موتیوں اور یاقوت سے مزین تھا۔ ایک طلائی کشتی میں بے مثال موتی رکھ کر ان پر نچھاور کئے گئے۔ دو سو بتیوں کا عنبریں فانوس ضیا پاشی کر رہا تھا۔ عمائدین سلطنت پر خام مشک کی گولیاں نچھاور کی گئیں اور ہر گولی میں ایک شاہی پروانہ تھا جس میں کسی جاگیر وغیرہ کے انعام کا وثیقہ رکھا تھا۔ ایوان خلافت میں 38 ہزار پردے آویزاں تھے۔ جسے ہم ’’خلیفہ‘‘ ہارون الرشید کہتے ہیں، بادشاہت کا معیاری نمونہ تھا۔ دریائے دجلہ کے کنارے خاص قسم کے بجرے بنوائے گئے تھے جن کی شکلیں مختلف جانوروں سے ملتی تھیں‘‘۔کاش اموی یا عباسی ’’شاہان‘‘ اپنی دولت کا عشر عشیر بھی ہمارے لئے چھوڑ گئے ہوتے تو آج اسلام کا قلعہ پاکستان چشم زدن میں سارے قرضے اتار دیتا اور آج مورخہ 28مئی روزنامہ جنگ کی لیڈ یہ نہ ہوتی :’’بجٹ، IMF شرائط پوری کریں گے‘‘تاریخ چیخ رہی ہے ، سننے سمجھنے والا کوئی نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)