• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اسمبلی نے صوبے میں صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کے تحفّظ کے بِل کی منظوری دےدی ہے، جس کے بعد سندھ وہ پہلا صوبہ اور پاکستان اس خطّے کا وہ پہلا مُلک بن گیا ہے، جہاں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حوالے سے کوئی قانون سازی ہوئی ہے۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پاکستان کئی برس سے ان ممالک میں سر فہرست ہے ،جہاں صحافیوں کا قتل، اغواکی وارداتیںاور دھمکیوں یادیگر طریقوں سے اُنہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑی تعداد میں رُونما ہوتے ہیں۔ 

پاکستان میں ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ صحافیوں کے تحفّظ کےضمن میں مخصوص قوانین کا نہ ہونا ہے۔یہاں کسی واقعے کے بعد دیگر فوج داری قوانین کے تحت مقدمات تو درج کرلیے جاتے ہیں ،لیکن آج تک کسی صحافی پر حملے کے ملزمان کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ امریکی صحافی ڈینیئل پرل اور ولی بابر قتل کیس اس کی واضح مثالیں ہیں، جن میں ملزمان کو ماتحت عدالتوں سے سزائے موت سے قید و جرمانے تک کی سزائیں سنائی گئیں، لیکن پھراعلیٰ عدالتوں میں دائر اپیلوں پر انہیں باعزت بَری کردیا گیا۔

گزشتہ چند سالوں سے پاکستان ،بالخصوص صوبۂ سندھ میں صحافیوں پرحملوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے بعد سندھ میں صحافیوں پر حملوں کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے، جن میں کئی صحافی اپنی جان سے گئے اورمتعدّد زخمی ہوئے۔ ’’ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ‘‘ اور ’’کراچی یونین آف جرنلسٹس ‘‘کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفّظ کے لیے الگ سے قانون سازی کی جائے۔ 

ایک ایسی قانون سازی، جس کے نتیجے میں صحافیوں کو مکمل تحفّظ کا احساس ہوسکے۔ سابق دَورِ حکومت میں پہلی بار صحافیوں کے تحفّظ اور فلاح و بہبود پر قانون سازی کا آغاز ہوا اوراُس وقت کی وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات، مریم اورنگزیب نے’’ جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بِل 2016 ء‘‘کا مسوّدہ تیار کیا۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس نے 2016 ءمیں اس کا جائزہ لیا اور اس میں مزید بہتری کے لیے حکومت کو اپنی سفارشات بھی بھیجیں، مگر بدقسمتی سے نواز شریف حکومت اسے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچاسکی اور صحافیوں کے تحفظ کے بِل کا یہ مسوّدہ قانون کی شکل اختیار نہ کرسکا۔

صحافیوں، میڈیا ورکرز کے تحفظ کیلئے قانون سازی
صوبائی وزیرِ اطلاعات ،ناصر حُسین شاہ ’’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹشنرز بِل‘‘ سندھ اسمبلی میں پیش کررہے ہیں

پھر 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں پی ایف یو جے ،پاکستان تحریک انصاف سے اور سندھ میں کراچی یونین آف جرنلسٹس، پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنا یہ دیرینہ مطالبہ دُہراتی رہی۔ ویسے تو صوبے اور مرکز دونوں جگہ دو الگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے ،لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ مُلک بھر کی صحافی برادری کے اس مطالبے کو دونوں ہی حکومتوں نے سنجیدگی سے لیا اوربالآخر 21 مئی 2021 ء کےتاریخی دن قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی، سندھ میں صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کے تحفّظ کے حوالے سے تیار کردہ بِلز پیش کردیے گئے۔ 

وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کردہ بِل کو ’’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بِل 2020ء‘‘ جب کہ سندھ اسمبلی میں پیش کردہ بِل کو ’’دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹشنرز بِل 2021ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ دونوں ہی بِلز ملتے جُلتے ہیں اور اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں میں 80 فی صد مماثلت ہے ،لیکن یہ دونوں بِلز 2016ء میں تیار کیے گئے جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بِل کے مسودے سے کافی مختلف اور بہتر ہیں۔ 

صحافیوں کے تحفّظ کے قوانین کی تیاری پر پی ایف یو جے اور کراچی یونین آف جرنلسٹس نے وقتا ًفوقتا ًاپنے اجلاس، سیمینارز اور ویبینارز منعقد کیے اور اس حوالے سےحکومت کو اپنی سفارشات بھیجیں۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے ایک وفد نے 23 اپریل 2021 ءکو صوبائی وزیرِ اطلاعات و نشریات، ناصر حُسین شاہ سے سندھ اسمبلی میں ایک ملاقات کی اور بِل پر انہیں کے یو جے کی سفارشات پیش کیں، جنہیں بِل کا حصّہ بنایا گیا ہے۔

آج اس حوالےسےقلم اُٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل کی جب بھی بات ہوئی، صحافی برادری کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ ’’اس بِل کے مندرجات کیا ہیں اور اس کے قانون بن جانے کی صورت میں صحافی برادری کو کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ کے یو جے کی جانب سے ماضی میں بھی اس بِل کا مسوّدہ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا تھا اور اب جب کہ سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف و پارلیمانی اُمور نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے، تو ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کے چیدہ چیدہ نکات سامنے لائے جائیں تاکہ صحافی برادری کو یہ اطمینان ہوسکے کہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے ان کے حقوق کا تحفّظ جاری ہے۔

سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والے ’’دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹشنرز بِل 2021ء‘‘ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس بِل کا مقصد مُلک میں صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کے آزادیٔ اظہارِ رائے کے حق، ان کے تحفظ، غیرجانب داری اور خودمختاری کو فروغ دینا ہے، جب کہ1973 ءکے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت یہ ریاست کی ذمّے داری ہے کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے حق کا تحفّظ کرے۔ ‘‘بِل میں کہا گیا ہے کہ’’ یہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور ان کی خودمختاری کے مضبوط کلچر کو پروان چڑھائے اور ان پر ہونے والے حملوں پر بالخصوص غور و فکر کرے۔

صحافیوں، میڈیا ورکرز کے تحفظ کیلئے قانون سازی
کراچی یونین آف جرنلسٹس کا وفد، صوبائی وزیرِ اطلاعات و نشریات سے ملاقات میں بِل سے متعلق اپنی سفارشات پیش کررہا ہے

علاوہ ازیں، صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کے حقوق کے تحفظ اور اسے پروان چڑھانے کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک قائم کرنا فائدہ مند ہوگابل میں صحافی کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’ہر وہ شخص، جو کسی بھی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا کسی نیوز براڈ کاسٹ سے وابستہ ہو ،جو ریڈیو اور ٹی وی دونوں ہوسکتے ہیں اور وہ سیٹلائٹ یا کیبل پر چلنے والا چینل یا آن لائن یا آف لائن چینل بھی ہوسکتا ہے، جب کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا دیگر براڈکاسٹ نیوز کے لیے فِری لانس کام کررہا ہو، صحافی کہلائے گا۔‘‘ 

بِل میں تمام میڈیا ورکرز کو بھی مکمل کور کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ’’ میڈیا پریکٹیشنرز کا مطلب ہر وہ شخص ہے،جو ابلاغِ عامّہ کے کسی بھی ذریعے سے عام افراد تک معلومات پہنچانے میں کسی طرح بھی شامل ہو، جس میں کیمرامین، فوٹوگرافر، ٹیکینکل سپورٹ اسٹاف، ڈرائیورز، ترجمان، مترجم، ایڈیٹرز، پبلشرز، براڈکاسٹرز، پرنٹرز اور ڈسٹری بیوٹرز شامل ہیں۔‘‘ اس بِل میں صحافیوں کو کسی بھی ذریعے سے ہراساں کیے جانے کو جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’ کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کو ہراساں کرنے کا مطلب اسے دھمکی دینا، نقصان پہنچانا، زبانی یا تحریری یا کسی بھی اور ذریعے سے چاہے وہ واضح ہو یا اس کا مفہوم یہی بنتا ہو اور اس کا مقصد سینسر کرنا، دھمکی دینا یا زبردستی کرنا ہو ،جرم تصوّر کیا جائےگا۔‘‘ اس میںحکومت، میڈیا مالکان، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اوردیگر ذرایع کی بھی تشریح کی گئی ہے۔

بِل کا دوسرا حصّہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی زندگی کے تحفّظ اور ان کی حفاظت سے متعلق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت ،آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کی زندگی کے تحفّظ اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے اور انہیں ہر قسم کے پُرتشدّد واقعات سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین سمیت دیگر سیکیوریٹی قوانین، صحافیوں کے کام میں مداخلت کے لیے استعمال نہیں کیے جائیںگے۔ حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ متنازع اور متاثرہ علاقوں میں کام کے دوران صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو کسی بھی قسم کی دھمکیوں، خوف اور مقدمات درج کیے جانے کا ڈر نہیں ہوگا۔ 

بل کے مطابق کوئی بھی شخص یا ادارہ خواہ وہ نجی ہو یا سرکاری کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کے خلاف کسی قسم کے پُرتشدّد واقعے یا اسے دھمکی میں ملوث نہیں ہوگا ،ہر صحافی اور میڈیا پریکٹشنر کو اپنی خبر کے ذریعے کو سامنے نہ لانے کا مکمل تحفّظ حاصل ہوگا اور کوئی بھی حکومتی افسر، ایجینسی یا ادارہ کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز پر خبر کے ’’ذرایع ‘‘ سامنے لانےکے لیے دباؤ ڈال سکے گا، نہ اسے دھمکی یا کسی طریقے سے مجبور کرے گا اور نہ ہی کوئی ترغیب دے گا۔ بِل میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’حکومت، صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو کسی بھی شخص یا گروہ یا کسی سرکاری یا نجی ادارے کی جانب سے جسمانی طور پر، آن لائن یا ڈیجیٹل طریقے سے ہراساں کرنے، دھمکانے اورپُرتشدّد واقعات سے بچانے کے لیے ہر ممکن ضروری اقدامات کرے گی۔

کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی پُرتشدد واقعے پر کوئی چُھوٹ نہیں دی جائے گی اور فوری طور پر موثر تفتیشی اور استغاثے کی کارروائی کی جائے گی۔ کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر پر حملہ کرنے یا ہراساں کرنے کی دھمکی کو بھی عملی طور پر ہراساں کرنایا حملہ کرناہی تصوّر کیا جائے گا۔ ‘‘حکومت میڈیا کے خلاف جرائم سے لڑنے کے لیے موثر حکمتِ عملی تیار کرے گی اور کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرکی جانب سے اَزخود یا ان کے اہلِ خانہ، یونینز، میڈیا ایسوسی ایشنز یا ان کی زندگی کے تحفظ پر کام کرنے والی سوِل سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے رپورٹ کیے جانے والے کیسز کی تفتیش اور مانیٹرنگ کرے گی۔ 

وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر حکومتی اداروں کے مابین ہم آہنگی کی حکمتِ عملی اختیار کرے گی۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جن میں سول سوسائٹی، یونینز، مالکان اور میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والی ایسوسی ایشنزشامل ہیں، اُن کے اور حکومتی اداروں کے مابین ہم آہنگی لانے کے لیے کام کرے گی تاکہ صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو اقوامِ متحدہ کے جرنلسٹس سیفٹی پلان کے تحت کام کرنے کے بہترین مواقع مل سکیں۔

’’دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بِل 2021ء‘‘ کا تیسرا حصّہ کمیشن کے قیام ،اُس کے کام کرنے کے طریقۂ کار، قواعد و ضوابط اور صحافیوں کی تربیت اور انشورنس سے متعلق ہے۔ بِل کی تیاری کے دوران کے یو جے کی جانب سے جو سفارشات حکومت کو بھیجی گئی تھیں، اُن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اس قانون کے تحت قائم ہونے والا کمیشن ایک خودمختار اور بااختیار ادارہ ہو، جس کے سربراہ سے لے کر ارکان تک کسی دباو ٔمیں آئے بغیر کام کرسکیں۔

اسی مقصد کے لیے یہ سفارش کی گئی تھی کہ کمیشن کا سربراہ کم از کم سندھ ہائی کورٹ کا جج ہونا چاہیے ،حکومت نے اِسی سفارش کو بِل کا حصّہ بنایا ہے۔ تاہم، اس میں یہ آپشن بھی رکھا ہے کہ کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو، جو مناسب تجربہ اور قابلیت رکھتا ہو، کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ بِل میں کہا گیا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت جو کمیشن قائم ہوگا اس کا نام ’’کمیشن فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ اَدر میڈیا پریکٹیشنرز‘‘ہوگا اور اس کے قیام کا نوٹیفکیشن سندھ حکومت آفیشل گزٹ کے ذریعے جاری کرے گی۔ کمیشن کا ایک چیئرپرسن ہوگا ،جب کہ صوبائی سیکریٹری انفارمیشن، صوبائی سیکریٹری داخلہ، صوبائی سیکریٹری قانون اور صوبائی سیکریٹری انسانی حقوق اس کے ارکان ہوں گے۔ 

کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو بھی نمایندگی دی گئی ہے ،جب کہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کاؤنسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن، سندھ بار کاؤنسل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا نمایندہ بھی کمیشن کا رُکن ہوگا۔ سندھ اسمبلی میں بِل پیش کیے جانے کے بعد اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی اُمور کے سپرد کیا گیا تھا ،جس کے اجلاس میں راقم الحروف نے کمیشن کے ارکان میں اخباری کارکنوں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن کے نمایندے شامل کرنے کی سفارش کی،جس سے وزیرِاعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے قانون، مرتضیٰ وہاب سمیت قائمہ کمیٹی کے تمام ارکان نے اتفاق کیا اور اب ایپنک کا نمایندہ بھی کمیشن کا رُکن ہوگا۔ 

بِل میں اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ کمیشن کے نمایندے ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں کمیشن کے رکن نہیں ہوں گے، انہیں ان کی نمایندہ تنظیم کی جانب سے سالانہ بنیادوں پر نام زَد کیا جائے گا۔ تاہم، بعد اَز مدّت ان کی کمیشن میں نمائندگی کی تجدید کی جاسکے گی۔ کمیشن ایسے کسی بھی شخص کو، جو صحافت سے متعلق بہترین علم رکھتا ہو یا جس کا اس حوالےسے عملی تجربہ ہو ، کمیشن کے اجلاس یا اجلاسوں میں بطور مبصّر شرکت کے لیے منتخب کرسکتا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین کے علاوہ تمام ارکان بشمول مبصر رضاکارانہ بنیادوں پر کام کریں گے۔ کمیشن کا اپنا سیکریٹریٹ ہوگا، جس کے لیے حکومت سالانہ گرانٹ کے ذریعے مناسب بجٹ فراہم کرے گی، تاکہ کمیشن اپنی ذمّے داریاں بہتر طورپر ادا کرسکے۔

بِل میں کمیشن کے چیئرپرسن کے تقرّر کے طریقۂ کار کی بھی وضاحت کی گئی ہے، جس کے مطابق کمیشن کا چیئرپرسن سندھ ہائیکورٹ کا جج یا 20 گریڈ کا کوئی ریٹائرڈ سول سرونٹ ہوگا ،جو قانون، انصاف، پبلک ایڈمنسٹریشن اور ہیومن رائٹس سے متعلق بہترین علم رکھتا ہوگا یا اُس کا ان شعبوں میں کام کرنے کا عملی تجربہ ہوگا۔ کمیشن کے چیئرپرسن کے عُہدے کی مدّت عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے 3 سال تک کے لیے ہوگی۔ چیئرپرسن کے عہدے کی مدّت ختم ہونے کے بعد اگر کمیشن کے ارکان کی دو تہائی اکثریت سفارش کرےگی، تو مذکورہ شخص اگلی مدّت کے لیے بھی چیئرپرسن مقرر ہو سکے گا، لیکن ایسا صرف ایک ہی بار ہوگا۔ 

چیئرپرسن اگر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہے، تو استعفیٰ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کرنا ہوگا اور استعفے کی منظوری کی صورت میں اس عہدے پر 30 دن کے اندر کسی اورشخص کو چیئرپرسن تعینات کیا جائے گا۔ کمیشن کے چیئرپرسن کو صرف اس صورت میں عہدے سے ہٹایا جاسکے گا ،اگر اس کے خلاف بڑے پیمانے پربدانتظامی، نااہلی، کرپشن، بجٹ کے استعمال کے طریقۂ کار کی خلاف ورزی، اخلاقی پستی، یا بدعملی کے الزامات ہوں۔ کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہوگا، جس کے پاس اپنے کام کرنے کا طریقۂ کار اور قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار ہوگا۔ 

چیئرپرسن کے پاس کمیشن کا اجلاس طلب کرنے کا اختیار ہوگا، جب کہ کمیشن کے 50 فی صد ارکان کی درخواست پر بھی اجلاس طلب کیا جاسکے گا۔ کمیشن کا اجلاس بلانے کے لیے 14 دن کا نوٹس دینا ہوگا۔ اجلاس کا کورم کمیشن کے تمام ارکان کی تعداد کا ایک تہائی ہوگا ، اجلاس میں کسی وجہ سے چیئرپرسن کی عدم موجودگی پر، موجود ارکان دو تہائی اکثریت سے کسی بھی رُکن کو اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب کرسکیں گے۔ کمیشن کے تمام فیصلوں، ہدایات اور احکامات کی کمیشن کے چیئرپرسن یا اجلاس کی صدارت کرنے والے پریزائڈنگ افسر تصدیق کریں گے،علاوہ ازیں، وہ رُکن بھی یہ تصدیق کرسکے گا جسے چیئرپرسن نے اس کام کا اختیار دیا ہو۔

بِل کا چوتھا حصّہ کمیشن کے فرائضِ منصبی سے متعلق ہے ،جس کے مطابق کمیشن ملنے والی ان تمام شکایات کا جائزہ لے گا، جو کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کی جانب سے کسی فرد یا گروہ، کسی سرکاری یا نجی ادارے کے خلاف ہراساں کیے جانے، جنسی ہراسانی، تشدّد پر مبنی واقعےیا پُرتشدّد حملے کی دھمکی سے متعلق ہوں گی۔ ایسی کسی بھی درخواست پر کمیشن 30 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ کمیشن کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر پر ہوئے حملے کا ازخود نوٹس بھی لے سکے گا۔ 

ایسے کسی بھی معاملے پر اپنی رپورٹ 14 دن میں حکومت کو پیش کرے گا اور اگر کسی فرد یا گروہ یا سرکاری یا نجی ادارے کو قصوروار پائے گا، تو حکومت سے اس کے خلاف مناسب کارروائی کی سفارش کرے گا۔ کمیشن ایسے کسی بھی معاملے کی فوری اور تیز تفتیش کا حکم دے سکے گا، تاکہ ماڈل کورٹ سے 90 دن میں فیصلہ آسکے۔ کمیشن کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ ایسے کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر، جس پر حملہ کیا گیا، دھمکی دی گئی یا کسی طرح ہراساں کیا گیا ،اُس کی حفاظت کی خاطر مناسب اقدامات کرنے کا حکم دے۔ صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو ہراساں کیے جانے، جنسی ہراسانی، پُرتشدّد حملوں یا اس کی دھمکی کے کیسز کی تفتیش اور استغاثہ کی نگرانی اور فالو اَپ بھی کرے گا۔ 

کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ کوئی بھی متعلقہ ریکارڈ، کسی بھی فرد، انتظامی افراد، سرکاری محکموں اور ایجینسیز کے افسران، بشمول پولیس، انٹیلی جینس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افراد کو طلب کرسکے گا۔مزید برآں ،کمیشن کو بااختیار بنانے کے لیے بِل میں کہا گیا ہے کہ اسے سول کورٹ کے برابر وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے ،جو پاکستان پینل کوڈ 1860 ءکی دفعات 175، 178، 179، 180 اور 228 میں دیئے گئے ہیں۔ کمیشن سیفٹی آف جرنلسٹس سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ایکشن پلان پر حکومتی کارکردگی کا بھی جائزہ لے سکے گا، جب کہ وہ ایک ایسی ویب سائٹ بھی تیار کرے گا ،جہاں کوئی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر آن لائن اپنی شکایات درج کرواسکے گا۔ 

ویب سائٹ پر کمیشن کو ملنے والی تمام شکایات کا اسٹیٹس اور اَپ ڈیٹس بھی موجود ہوں گی۔ کمیشن صوبے میں صحافیوں اورمیڈیا پریکٹشنرز کی سیفٹی اور سیکیورٹی پر اپنی سالانہ رپورٹ تیار کرکےسندھ اسمبلی میں پیش کرے گا۔ ’’دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021ء‘‘کا پانچواں حصّہ ٹریننگ اور انشورنس سے متعلق ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کی مناسب انشورنش اور موزوں تربیت کے ذمّے دار مالکان ہوں گے، کیوں کہ وہ اُن کے کام ہی کی وجہ سے کسی بھی حملے کا نشانہ بن سکتے، زخمی ہوسکتے یا قتل کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت مناسب انشورنس اور موزوں تربیت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے سے رابطے میں رہے گی۔ 

حکومت صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کے لیے سیفٹی پالیسیز اور پروٹوکولز بنائے گی اور اس مقصد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے اور سول سوسائٹی سے رابطے کرے گی ، حکومت صحافیوں کی مختلف کیٹیگریز جن میں رپورٹرز، فوٹو جرنلسٹس، ویڈیو جرنلسٹس اور ضلعی نمایندگان شامل ہیں ،انہیں موثر سیفٹی پروگرامز بھی فراہم کرے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت موزوں تربیت اور مناسب انشورنس کے حوالے سے اپنی کارکردگی کی رپورٹ وقفے وقفے سے کمیشن کو بھیجتی رہے گی۔

’’دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بِل 2021ء‘‘ کا چھٹا اور آخری حصّہ متفرقات پر مشتمل ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون امن اور جنگ دونوں زمانوں میں نافذ العمل ہوگا۔ کمیشن اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مختلف کمیٹیز جیسے ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی، فنانشل کمیٹی اور ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرسکتا ہے ،جب کہ کمیشن کو اپنے قواعد و ضوابط کے تحت سیکریٹریٹ کے لیے افسران اور عملے سمیت مشیر یا کسی ماہر کے تقرّر کا بھی اختیار ہوگا ،لیکن قواعد وضوابط بنائے جانے تک دیگر حکومتی دفاتر سے تبادلے بھی کیے جاسکیں گے۔ 

کمیشن میں کام کرنے والے کسی بھی فرد کے خلاف قواعد و ضوابط کے تحت انضباطی کارروائی کی جاسکے گی۔ اور یہ تمام افراد سوِل سرونٹ تصوّر کیے جائیں گے، کمیشن کسی بھی عمومی یا خصوصی حکم کے ذریعے اپنے اختیارات اور فرائضِ منصبی چیئرپرسن، کسی رُکن یا کمیشن کے کسی بھی افسر کو دے سکے گا۔

سندھ اسمبلی میں بِل بحث کے لیے پیش کیے جانے پر متّحدہ قومی موومنٹ کے رکن سندھ اسمبلی ،خواجہ اظہار الحسن نے بعض ترامیم تجویز کیں، جن میں سے ایک تجویز کو ایوان نے منظور کرلیا ، جس کے تحت کمیشن کی رپورٹ پر جب متاثرہ صحافی کا مقدّمہ ماڈل کورٹس میں چلے گا ،تو اسے حکومت کی جانب سے قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ یہ تجویز کے یو جے کے وفد نے بل پر سیاسی جماعتوں کی حمایت کے حصول کے لیے بہادرآباد میں ایم کیو ایم(پاکستان) کی قیادت سے ملاقات کے وقت اُن کے سامنے رکھی تھی۔بِل کی منظوری کے بعد اب اگلا مرحلہ کمیشن کے قیام کے نوٹیفکیشن کے اجرا کا ہے، جس کے بعد کمیشن کے کام کرنے کے قواعد و ضوابط تیار کیے جائیں گے۔

تازہ ترین