لاہور (جواد رضوی) نئے تقررکئے گئے رکن FBR پالیسی بورڈ میں مفاد کا ٹکراؤ سامنے آیا ہے، چیئرمین سینیٹ کا کہنا ہے کہ یہ مفاد کا ٹکراؤ نہیں،کسی بھی بورڈ یا کمیٹی میں کوئی بھی سینیٹر نامزد کیا جاسکتا ہے، مفاد کا ٹکراؤ اس وقت سامنے آئیگا اگر تقرر شدہ سینیٹر اپنے عہدے سے کوئی بھی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے مفادات کے واضح ٹکراؤ میں سینیٹر دلاور خان کو ایف بی آر پالیسی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے تقرر کردیا جیساکہ وہ ایک بڑی مقامی تمباکو کمپنی کے مالک اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور کامیابی کے ساتھ لابنگ کی اور گرین لیف پر ایڈوانسڈ ایف ای ڈی ٹیکس میں کمی لانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد چیئرمین سینیٹ پاکستان صادق سنجرانی کی جانب سے نامزدگی پر اس تقرری کو ایف بی آر پالیسی بورڈ کا رکن بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف بی آر پالیسی بورڈ کے نئے رکن دلاور خان، جو سووینر ٹوبیکو کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، نے حکومت پاکستان کے تمباکو کنٹرول کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ کمپنی سب سے بڑے مقامی برانڈ میلبورن کی مالک ہےجو کھلے عام 40 روپے فی پیک فروخت ہورہا ہے جو حکومت پاکستان کی جانب سے طے شدہ کم سے کم قیمت 63 روپے فی پیک سے کم ہے۔ مزید یہ کہ حکومت نے بطور ٹیکس سگریٹ پیک پر کم سے کم 44 روپے لگائے ہیں جبکہ اس کو حکومت کی لازم ٹیکس رقم سے بھی نیچے فروخت کیا جارہا ہے۔ دلاور خان نے متعلقہ تمباکو کنٹرول کے متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی جن میں سگریٹ کے پیک پر حکومت پاکستان کی مہر کا غیر مجاز استعمال، سگریٹ کی مفت سیمپلنگ جو ممنوع اور غیر قانونی ہے وغیرہ شامل ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو سوال بھیجا گیا جبکہ دی نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان سینیٹ نے کہا کہ 100 سینیٹرز ہیں؛ ان میں سے کسی کو بھی چیئرمین کی جانب سے کسی بھی کمیٹی یا بورڈ میں نگرانی کے کردار کے لئے نامزد کیا جاسکتا ہے؛ سینیٹر دلاور خان کو ان کی مہارت کی بنیاد پر ایف بی آر پالیسی بورڈ کا رکن مقرر کرنے کی صورت میں مفادات کے ٹکراؤ کا سوال اس وقت اٹھایا جائے گا جب سینیٹر نے اپنے عہدے سے کوئی فائدہ حاصل کیا ہوگا یا وہ بورڈ سے متعلق کسی بھی غلط کام میں ملوث پایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تو ایف بی آر پالیسی بورڈ میں رکن کی حیثیت سے سینیٹر کی تقرری مفادات کا ٹکراؤ نہیں۔ دلاور خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معلومات دینا کہ سگریٹ حکومت کی جانب سے طے کردہ قیمت سے کم میں فروخت ہورہی ہے یہ صحافت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی تقرری مفادات کا ٹکراؤ ہے تو پھر سیاست میں رزاق داؤد اور تمام دیگر کاروباری شخصیا ت بھی مفاد کا ٹکراؤ ہے۔