• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سویلین حکومت کے سرنڈر کرنے سے انکار پر عوامی سطح پر غیر اعلانیہ جبکہ اقتدار کی راہداریوں میںعلانیہ طور پر وطنِ عزیز میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا ، جس کےنتیجہ میں وطن عزیز سیاسی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ، تحریکِ انصاف کے ہمنوا اپنے کٹھ پتلی ہونے کا فخریہ اعلان کرتے ہیں۔

نوجوانوں کواپنا ہم نوا بنانے کے لیے پب جی گیم تخلیق کی گئی، تخلیق کاروں نے نہایت پرکشش ٹائٹل ، مراحل اور نعرے ترتیب دیے کہ بلا امتیاز جنس و عمر ناپختہ و پختہ اذہان رکھنے والے بھی تبدیلی کے ترانے سے گمراہ ہوگئے، تسلی کے نعروں کے باعث عوام ہر روز ایک نئے ٹریپ میں پھنس جاتے۔

یہ پب جی گیم کی طرح ہی ہے جس میں واپسی کا کوئی راستہ رکھا ہی نہیں گیا ،یعنی جب کوئی گیم کے مخصوص زون میں داخل ہوجاتا ہے تو واپسی کا امکان ختم شد۔

تین سال تک کٹھ پتلی اگرچہ بغیر سہارے چل سکتے ہیں لیکن فیڈ ڈ پروگرام کے سوا اسے کچھ نہیں کرنا آتا، اعلان کیا گیا تھاکہ نواز شریف ہمیں قبول نہیں ہے کیونکہ وہ عوام کو مصنوعی طور پر 35روپے کلو آٹا، 50روپے کلو چینی، 120روپے کلو گھی، 150روپے فی کلو مرغی دینے پر مصرہے۔

پراپیگنڈہ کیا گیا کہ مسیحا کا روپ ختم کرکے نواز شریف کو کرپٹ وزیر اعظم ڈکلیئر کیا جائے۔نواز شریف انفراسٹرکچر کے میگامنصوبوں کو یک جنبش قلم شروع کردیتا ہے‘ اس لئے وہ کرپٹ ہے۔

کہا گیا نواز شریف جاہل وزیر اعظم ہے اس کو معیشت کا کیا پتہ ، وہ تو کمیشن بنانے کیلئے روزگار اور کاروبار بڑھانے کی پالیسیاں بناتا ہے ، اسی لئے پناہ گاہیں اور لنگر خانے بناکر قوم کو بےکار بنانے کی پالیسی کا اجراء کیا گیا،بالکل ویسے ہی جیسے گوربا چوف کو ملک کمزور کرنے کیلئے روس کا صدر بنایا گیا تھا۔

جھوٹ پھیلایا گیا کہ ہریسہ کھانے والے نواز شریف کا دماغ کام نہیں کرتا کیونکہ اس نے بغیر سوچے سمجھے ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کیلئے اور نوجوانوں کو قرضے دینے کی فضول سکیمیں شروع کیں،جبکہ سیلیکٹڈ نے وہی سکیمیں نئے نام سے دوبارہ شروع کردیں۔

یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ نواز شریف کی ہدایت پر شہباز شریف نے ذہین اور قابل بچوں کو بیرون ملک کے دورے کروائے، انھیں لیپ ٹاپ دئیے جو دنیا کا سب سے بڑا ظلم تھا ، اس سے نوجوانوں میں حصول تعلیم کیلئے محنت کرنے کا جو جذبہ اجاگر ہوا۔

وہ ملک کیلئے انتہائی خطرناک تھا، اعترض تو یہ بھی اٹھایا گیا کہ نواز شریف نے چھ ایٹمی دھماکے کرکے اربوں امریکی ڈالر وصول کرنے کا سنہری موقع کھوکر معیشت کمزور اور ملک کو بدنا م کردیا۔

نکتہ چینی تو یہ بھی کی گئی کہ آئی ایم ایف سے نکلنے کا معاملہ ہو یا بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانےکی بات ، گوادر کو عالمی سطح کا یونٹ بنانےکا منصوبہ ہویا رنگ روڈ زکی تعمیر میں تسلسل لانے کی پالیسی، نواز شریف سویلین ہوکر بھی ڈکٹیشن نہیں لیتا بلکہ اپنی مرضی سے کام کرنا چاہتا ہے، اور تو اور اس کا چھوٹا بھائی شہباز شریف پنجاب سپیڈ بن کر دن رات نیک نامی کمانے میں لگا رہتا ہے، رات کے کسی پہر بھی ترقیاتی منصوبے پر پہنچ کر ٹائم لائن کی خود نگرانی کرتا ہے۔

شریف برادران کی نیک نامی قابل قبول ہی نہیں بلکہ ناقابلِ برداشت ہے ایسا نہ ہوکر وہ اتنے طاقتور بن جائیں کہ ہٹانا ناممکن ہوجائے، جبر اور طاقت کے سارے دائو کھیلنے کے باوجود نوازشریف کی مقبولیت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ 

حکمرانوں نے تین برسوں میں نیب، ایف آئی اے میں مقدمات میں الجھانے اور گرفتار کرنے کے باجود اپوزیشن پر ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کی۔

کٹھ پتلی وزیراعظم اور اس کے ہمنوا خود ہی عدالت بن کر انکوائریوں کا اعلان کررہے ہیں ، تبھی تو ظفر مرزا،خسرو بختیار ، جہانگیر ترین تمام تر سکینڈل کے باوجود بھی حاجی قراردےدیے گئے ، شاید آٹا اسکینڈل میں آٹا شہباز شریف کھا گیا ہواور چینی اسکینڈل میں گنےکا جوش نواز شریف ہی پی گیا ہو۔

عوام جان چکے ہیں کہ سارا قصور ہی نواز شریف کا تھا ، وہ اس قدر ضدی تھا کہ سستے نان روٹی، سبزی ، دالیں ، گیس ، بجلی ،پانی فراہم کرکے بھارت کوخوش کیا کرتا تھا جبکہ شہباز شریف دن رات ترقیاتی کام مکمل کر کے امریکہ اوراسرائیل کو خوش کیا کرتا تھا۔

ان کو روکنے کیلئے آمدن سے زائد اثاثوں ،منی لانڈرنگ اور غداری کے مقدمات درج کرنا ضروری تھے ، لیکن عوام جان گئے ہیں کہ ہسپتال کو پچاس کروڑ روپے نقد دینے والےچند کروڑ کے فلیٹس برطانیہ میں کیوں نہیں خرید سکتے تھے، جبکہ برطانوی عدالت نے بھی فلیٹوں کی خریداری کی ٹرانزیکشن کو درست اور قانونی قرار دیدیا ہے ۔

تازہ ترین