پاکستان کی تاریخ میں جتنے بجٹ بنے اس کی بنیاد ان اعداد و شمار پر رہی جو کہ بالکل جعلی ہیں۔ ایف بی آر کو اچھی طرح علم ہے کہ اس کے محکموں کی ملی بھگت، آئی ایم ایف کی شرائط، کرپشن اور بیڈ گورنینس نے بجٹ کے خسارے میں اضافہ جاری رکھا۔ قرضوں پر انحصار کر کے بجٹ بنائے جاتے ہیں بلکہ قرضے ادا کرنے کیلئے مزید قرض لئے جاتے ہیں۔ پاکستان پر آمدنیوں پر ٹیکس اس لئے نافذ نہیں کیا جاتا کیونکہ طاقتور حلقے اس کی ادائیگی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہ خدشہ پہلے ہی تھا کہ بجٹ 2013-14 میں براہ راست ٹیکس نیٹ کو وسیع نہیں کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی پشت پر تمام صنعتی و تجارتی حلقے اور چیمبر آف کامرس ہیں اس لئے انکم ٹیکس کا نفاذ ممکن نہیں دوسری طرف تنخواہ دار طبقے کے حالات ویسے ہی ابتر ہیں، اب 5 لاکھ روپے سالانہ پر 5 فیصد ٹیکس کا نفاذ کر دیا گیا، اس طرح 25 ہزار روپے، 35 ہزار روپے تنخواہ پانے والا بھی سالانہ ٹیکس ادا کرے گا۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کے ٹیکس ریٹرن دیکھے جائیں تو پہلی پارلیمنٹ کی طرح اس میں بھی 60 سے 70 فیصد اراکین ٹیکس نہیں دیتے جو ملک کے مالدار ترین لوگ ہیں۔ پاکستان کا بجٹ خسارے میں اسی لئے رہتا ہے کہ مالدار افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے جن کی تعداد 33 لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستان بھر میں اگر بڑی بستیوں میں جا کر دیکھا جائے جہاں ایک ہزار اور دو ہزار گز یا کئی کنال پر مشتمل سرے محل نما بنگلے موجود ہیں، ان کے اندر عیاشی کی تمام آسائشیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مالداروں کے گھروں میں ”اسٹرانگ رومز“ بھی موجود ہیں پھر بھی مباحثہ یہ کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس فنانسنگ کے لئے کشکول گدائی پھیلایا جائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آئی ایم ایف جہاں بھی گیا وہاں خودانحصاری کی حکمت عملی ختم ہوئی، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہوا، مہنگائی ہوش ربا ہوئی اور برسرروزگار افراد کو بیروزگار کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ کفایت شعاری کے لئے یہ اقدامات ضروری ہیں، بلکہ ہم بھگت رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باوصف پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ معمول بن گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے کبھی یہ شرط نہیں رکھی کہ دولت ٹیکس کا نفاذ ہو، تمام مالدار لوگوں کے رہن سہن اور ان کی عیاشیوں کا تخمینہ لگا کر انکم ٹیکس لگایا جائے، فی کس آمدنی بڑھائی جائے تاکہ عام آدمی کی قوت خرید بڑھے جو بالکل ختم ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ شرط کبھی عائد نہیں کی کہ درآمدات اور برآمدات کنندگان اور کسٹم کی ملی بھگت سے جو ”مس ڈیکلریشن“ کی جاتی ہے اس تناظر میں ”اوور اور انڈر انوائسنگ“ کی جاتی ہے، اسے ختم کیا جائے۔ ملکی فصلوں کی فی کس پیداوار بڑھائی جائے۔ مالدار لوگ جو اشیائے تعیش درآمد کرتے ہیں اسے ختم کیا جائے۔ بڑی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے، چھوٹی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنا کر ان کو استعمال کیا جائے۔ روپے کی قدر کی بے قدری کو ”کیپ“ کر دیا جائے اور اسے مصنوعی طریقوں سے نہ رکھا جائے جس طرح شوکت عزیز نے 60 روپے فی ڈالر رکھا اور بیرونی تجارتی خسارہ 16 ارب ڈالر تک لے گیا۔ اسٹاک مارکیٹ کو آئی ایم ایف کے ساتھ، ساتھ نصابی جعلی معاشیات کی کتابوں میں ملک کے معاشی حالات کا پیمانہ کہا جاتا ہے ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت اسٹاک مارکیٹ عروج پر ہے، چاہے اس کا حجم کچھ ہو اور ”ٹرن اوور“ کچھ ہو۔ اس میں دو نمبریوں کو زیادہ فائدہ ہے، ان پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ پیمانے ہونے کے باوجود یہ عروج پر ہے، ملک کی حالت ابتر ہے۔ کراچی جہاں بدامنی کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کئی عشروں سے جنرل ضیاء الحق کے فضل سے جاری و ساری ہے، یہاں پر ارب پتیوں کے گھروں اور رہن سہن کی جانچ پڑتال کی جائے اور ان پر انکم ٹیکس نافذ کیا جائے تو اخراجات کے مطابق ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور دیگر انڈسٹریل علاقوں میں ایک طرف سرے محل نظر آئیں گے جبکہ دوسری طرف جھونپڑیاں۔ راولپنڈی کے قریب تو لوگ ابھی تک غاروں میں رہتے ہیں اس کے باوجود تھوک اور پرچون والے کبھی اپنی آمدنی درست نہیں دکھاتے، نہ ان پر کوئی قدغن لگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں 61 ہزار تھوک فروش ہیں جنہوں نے ایک موٴقر انگریزی کی خبر کے مطابق 2006ء سے 2012ء تک صرف 1.2 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے جبکہ ان کے پاس پاکستان کی افرادی قوت کا 16 فیصد کام کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ افراد ان کے پاس کام کرتے ہیں لیکن یہ بالواسطہ ٹیکسوں کو ہی ٹیکس سمجھتے ہیں، جو قیمت میں شامل ہوتے ہیں، ان میں منافع جمع کر کے تمام تجارتی و صنعتی حلقے مقررکردہ قیمت عوام سے ادا کرواتے ہیں تو پھر یہ مالدار طبقے صرف نوٹ بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔ زرعی اشرافیہ کی آمدنیوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے لیکن وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مالدار اور طاقتور طبقے جب انکم ٹیکس نہیں دیں گے جن میں بڑے، بڑے ٹرانسپورٹرز اور پروفیشنلز بھی شامل ہیں تو پھر بیمار معیشت کو چلانے والے ”اسٹیٹس کو“ کے حامی آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے اور عوام کو مزید بدحال کریں گے۔ بجلی کا مسئلہ پاکستان کے حکمرانوں کی مجموعی نااہلی اور کرپشن کے باعث ہے، اس میں بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔
ہندوستان 69 فیصد کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرتا ہے، وہاں سے بجلی چوری کی کوئی آواز نہیں آئی۔ چین کئی شعبوں کو مفت بجلی فراہم کرتا ہے، یہ پاکستان کو کیا ہوا؟ بجلی کے بلوں میں اتنا اضافہ کہ عام آدمی پیٹ کیلئے کچھ کرے یا بل ادا کرے اور پھر دیگر بلوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ڈیم بنانے پر کسی نے توجّہ نہیں دی جبکہ ہندوستان نے بڑے، چھوٹے کئی ڈیم بنا دیئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ کرنے والے جنرل ایوب خان دنیا سے چلے گئے لیکن اس معاہدے کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ یہ عالمی بینک جانتا ہے کیونکہ یہ معاہدہ عالمی بینک ہی کی معاونت سے ہوا تھا۔ اب جبکہ خسارہ ہی خسارہ ہو رہا ہے، فرنس آئل پر بجلی کی بنیاد رکھی تو تمام خسارے عوام سے پورے کیے جا رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ڈاکو مجبور بجلی چوروں کو پکڑ کر بجلی کی پیداوار بڑھائیں گے۔
یہ ساری جعلی حکمت عملیاں ہیں، بجٹ کوئی بیلنس شیٹ نہیں کہ اس میں اخراجات اور آمدنی کا اندراج کرنا ہوتا ہے بلکہ اس سے حکومت معاشی پالیسیوں کی سمت مقرر کرتے وقت وژن سے کام لیتی ہے جو موجودہ بجٹ جسے ایک دن میں بنایا جا سکتا ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔آئی ایم ایف کے پاس جانے کا شوق رکھنے والے یہ بھی جان لیں کہ وہ بڑے اثاثوں کی ری اسٹرکچرنگ کے بجائے نج کاری پر زور دیں گے۔ اس طرح حکومتوں کی نااہلی کا نقصان عوام اٹھائیں گے۔
پاکستان کے مالک کون ہیں؟ قرضوں، نج کاریوں اور ارتکاز دولت پر مشاہدالرحمان کی یہ کتاب جو 1997ء سے پہلے کی مختصر روداد ہے، شائع ہوئی جسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ حکمران طبقوں کو پاکستان سے کتنا پیار ہے اور یہی لوگ حب الوطنی کے نعرے بلند کرتے ہیں جو ملک کو فروخت کرنے میں پیش، پیش رہے ہیں۔ نج کاری کے بارے میں دو مثالیں ہی کافی ہیں مثلاً ایک شوگر مل عوام کے ٹیکسوں سے بنائی گئی جس کی لاگت کا تخمینہ 300 ملین روپے تھا۔ اسے ٹوکن رقم یعنی ایک روپے میں اپنے کسی ”کرونی“ کو فروخت کر دیا گیا۔ کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ پاکستان میں ایک ہوٹلوں کی ”چین“ تھی جس میں اکثریتی حصص حکومت پاکستان کے پاس تھے۔
ایک سماج کی سیڑھیاں چڑھنے والے کو بینک سے قرض لے کر دیا گیا، جس رقم سے اس نے ہوٹل خریدے، بعدازاں اس کا قرض معاف کر دیا گیا۔ ایک بزنس مگرمچھ جس نے 38 چھوٹے، بڑے قرضے لئے، جن کی مالیت 3.5 ارب روپے بنتی ہے، جس نے جعلی کولیٹرل دیا، جب اسے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ بیرون ملک بھاگ گیا ہے اور عیاشی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتوروں کے 500 ارب ڈالر باہر جمع ہیں تو پھر حکمرانوں سے عوام کیا توقع رکھ سکتی ہے لہٰذا 2013-14 کا بجٹ بھی روایتی عوام پر بوجھ ڈالنے کا بجٹ ہے۔