پسماندگی کا شکار صوبہ بلوچستان جہاں ایک جانب غربت اور افلاس کے ڈیرے ہیں تو دوسری جانب المیہ یہ ہے کہ اس صوبے میں مختص کردہ سالانہ ترقیاتی فنڈز بھی صرف نہیں ہوپاتے۔
بدقسمتی سے ہر سال ترقیاتی مد میں رکھے گئے 30 سے 40 ارب روپے استعمال نہیں ہوپاتے ہیں۔
بلوچستان میں جام کمال خان کی سربراہی میں 3 سال قبل برسر اقتدار آنے والی مخلوط حکومت نے اپنے 3 بجٹوں میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے تقریباً 300 ارب رکھے۔
حکومت ان3 برسوں میں ترقیاتی منصوبوں پر 88 ارب روپے خرچ نہ کرسکی جو لیپس ہوگئے۔
وزیر اعلیٰ جام کمال خان اس رقم کے ضائع ہونے کی ذمہ دار اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور رویہ کو قرار دیتے ہیں۔
اس رقم کے ضائع ہونے سے صوبہ میں ترقیاتی عمل کی رفتار مزید سست ہوئی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما فنڈز لیپس ہونے کی ذمہ دار جام حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، فنڈز لیپس ہونے سے بچانے کیلئے حکومت کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
بلوچستان حکومت نے پچھلے 3 برسوں میں گڈ گورننس کے قیام کے لیے سیکڑوں افسران کے تبادلے و تقرر کئے ہیں۔
3 برسوں میں7 ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات اور 3 سیکرٹری خزانہ تبدیل کئے گئے۔
معاشی ماہرین صوبے کے فنڈز لیپس ہونے کی وجوہات بیوروکریسی میں تواتر کے ساتھ تبادلے اور محکموں کے نچلے عملے کا ترقیاتی منصوبوں کا بہتر پی سی ون نہ بنانا بتاتے ہیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسا صوبہ جہاں 12 لاکھ بچے اسکولز سے باہر ہوں، آٹھ لاکھ نوجوان بے روز گار ہوں، جہان غربت کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہو، تعلیم اور صحت کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہو، وہاں ہر سال صوبے کے30 سے 40 ارب روپے استعمال نہ ہونا صوبائی حکومتوں کی نااہلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔