دنیا میں جتنے بھی رشتے ہیں ان میں سب سے مقدس رشتہ استاد اور شاگرد کا مانا جاتا ہے۔ شاعرِمشرق علامہ اقبال بھی اپنے استادوں کا بہت احترام کرتے تھے ایک دفعہ علامہ اقبال سیالکوٹ میں ایک دکان کے سامنے کھڑے تھے۔ دکان کے آگے تختے پرحقہ رکھا ہوا تھا۔ وہ وہاں کھڑے ہوکر حقہ پی رہے تھے۔ ان کا ایک جوتا پاؤں میں دوسرا زمین پر اور پاؤں تختے پر رکھا ہوا تھا۔ اتفاق سے اُن کے استاد مولانا سید میر حسن شاہ اُدھر سے گزرے۔
اُن کی نظر جب اپنے استاد پر پڑی تو فوراََ حقہ چھوڑ کرتختے سے اُترے، استاد کو جھک کر سلام کیا اور ادب سے اُن کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ حالت یہ تھی کہ ایک پاؤں میں جوتا تھا دوسرے میں نہ تھا، اسی حالت میں شرمساری محسوس کیے بغیر وہ استاد کو گھر تک پہنچا کر لوٹے اور پھر اپنا جوتا پہنا۔
علامہ اقبال کے اس واقعے سے سبق حاصل کریں کہ استاد کا احترام کیا ہوتا ہے۔ بزرگوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ استاد کے سامنے باادب بیٹھو، اگر استاد گفتگو کر رہے ہوں تو درمیان میں نہ بولو گفتگو ختم ہونے کا انتظار کرو۔ استاد کے پاس بیٹھ کرہنسی مذاق سے اجتناب کرو۔ اُن کی سختیوں کو برداشت کرو۔ استاد کی غیر موجودگی میں بھی اُن کا ادب کرو ۔اُن کی زندگی میں اور موت کے بعد بھی ان کے لیے دعا کرو۔