طویل بندش کے بعد بلآخر تعلیمی ادارے کُھل گئے اورامتحانات سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔ ایک اسکول میں چوتھی جماعت کا اردو کا پرچہ تھا ،پرچے میں چند الفاط دیے گئے تھے جن کےجملے بنانے تھے ان میں ایک لفظ ”مستعمل“ تھا۔
پرچہ ختم ہونے کے بعد اردو کی معلمہ اسٹاف روم میں بیٹھی بچوں کے پرچے چیک کرنے لگیں تو ایک بچے کی کاپی چیک کرتے ہوئے بے ساختہ ہنستے ہوئے قریب بیٹھی ریاضی معلمہ سے کہ دیکھو، اس بچے نے لفظ’’ مستعمل‘‘ کا جملہ بنایا ہے کہ ”مجھے مستعمل کے معنی نہیں آتے، میں مس سے پوچھوں گا“۔
معلمہ نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا، ”آپ نے نمبر دیے؟“
اردو کی معلمہ نے کہا، ”نہیں، جملے میں معنی کہاں ظاہر ہورہے ہیں؟“
ریاضی کی معلمہ نے کہا، ”جملہ بنانا ہے معنی تو نہیں لکھنے۔ یہ تو بچے کی ذہانت ہے کہ اس نے یہ جملہ بنایا لکیر کا فقیر نہیں بنا ،نا رٹا ہوا جملہ لکھا نا نقل کی کوشش کی۔ اب بتاؤ ’یہ میرا قلم ہے‘ اس میں معنی کہاں ہیں؟ مگر جملہ تو ہے نا“
اردو کی معلمہ قائل نہیں ہوئیں۔ کہا،۔۔ ”پھر بھی ، میرے خیال میں یہ جملہ نہیں۔
ریاضی کی معلمہ نے نہم ، دہم کے اساتذہ اور میڈم کو بلایا اور بچے کا بنایا ہوا جملہ دکھا کر پوچھا بتائیں کیا یہ جملہ نہیں ہے؟ کیا اس میں نمبر نہیں ملنے چاہیے۔‘‘
میڈم نے کہا، ” بالکل یہ جملہ ہے، انہوں نے اردو کی معلمہ سے کہا کہ بچے کو نمبر دیجیے“۔
اپنی ساتھی اساتذہ کی نہ چاہتے ہوئے بھی بات مان کر بلآخر معلمہ نے بچے کو نمبر دے دیے۔
(معلمہ لبنیٰ ،سعدیہ )