تاشقند(ایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شدید ناانصافی ہے‘ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے زیادہ کسی نے کردار ادا نہیں کیا‘ہم پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے ‘ افغانستان میں امن کیلئے سب سے زیادہ پاکستان نے قربانیاں دیں‘ پاکستان پر الزامات لگائے جانے سے مجھے مایوسی ہوئی۔
جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹواورامریکی افواج موجود تھیں اس وقت طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کئےگئے ‘طالبان کو بات چیت کی دعوت غیر ملکی افواج کے انخلاسے قبل دی جانی چاہیے تھی ‘جب طالبان کو افغانستان میں فتح نظر آ رہی ہے تو وہ اب پاکستان کی بات کیوں سنیں گے؟ سمجھوتا کیوں کریں گے؟۔
اسلحے کے زورپر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا‘کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ تنازع کشمیر کے تصفیہ سے پورا خطہ تبدیل ہوگا۔ پاکستان مزیدافغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ وزیر اعظم عمران خان جمعہ کو تاشقند میں ’’سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا 2021:ریجنل کنیکٹیوٹی : چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز‘‘ کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، امید کرتے ہیں کہ سی پیک علاقائی روابط میں بھی اہم کردار ادا کرے گا، افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے، ہماری ترجیح افغانستان میں استحکام ہے،پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔
طالبان کو مذاکرات کی دعوت اس وقت دینی چاہیے تھی جب امریکا کے سب سے زیادہ فوجی افغانستان میں تھے،اب طالبان کیوں امریکا کی بات مانیں گے جب افغانستان سے فوجیوں کا انخلاء ہورہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن اور مصالحت، تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھے گا۔
اشرف غنی کےالزامات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنا غیرمنصفانہ ہے، افغانستان کی صورتحال 2 دہائیوں کا تنازع اور گہری تقسیم کا نتیجہ ہے۔
افغانستان میں امن اور سیاسی عمل کو تقویت دینے کے لئے پاکستان، ازبکستان اور تاجکستان مل کر کام کریں گے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف سے تبادلہ خیال کیا ہے۔