رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
آپ اردو کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نہایت آسان اور سہل زبان پڑھنے کو ملے گی۔ نام سے پہلے کہیں مسمی یا مسمات نہیں ملے گا لیکن ہر پولیس رپٹ مسمی سے شروع ہو کر العارض پر ختم ہوتی ہے۔
تھانے میں اگر کوئی پڑھا لکھا شخص بھی درخواست دینے جاتا ہے تو منشی صاحب سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آیا درخواست دہندہ نے اپنے نام سے پہلے مسمی لکھا ہے یا نہیں اور بقیہ درخواست میں مخصوص الفاظ جو کہ رپٹ میں ہونے چاہئیں، موجود ہیں یا نہیں۔ پھر جب وہ انہیں ناپید دیکھتا ہے، اگرچہ درخواست کتنی ہی آسان اور سہل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ اس کو اپنے مخصوص و پسندیدہ وثیقہ نویس جس نے باہر ٹھیلہ لگایا ہوگا، کے پاس بھیج دے گا۔ وہ باہر کا وثیقہ نویس سمجھتا ہے کہ منشی صاحب کو کس طرح کی درخواست پسند ہے۔ پھر چاہے جرم مسجد سے جوتے چوری ہونے کا ہو یا اغوا برائے تاوان کا، درخواست کو سنسنی خیز بنانا اور مخصوص الفاظ شامل کرنا وثیقہ نویس کے ہنر کا کمال ہے۔رپٹ نویسی کے چند الفاظ بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
(صدر بجے دن) یعنی جب روزنامچہ میں دو رپورٹس ایک ہی وقت میں درج کرنی ہوں تو پہلی رپورٹ میں وقت درج کیا جاتا ہے اور دوسری رپورٹ میں صرف ’’صدر بجے‘‘ لکھا جاتا ہے۔ (رفتہ بحوالہ مدنمبر) یعنی مد/رپورٹ نمبر فلاں کے تحت روانہ کیا گیا۔ (بندی) یعنی اس سے مراد ملزمان کو حوالات تھانہ بند کیا جانا۔ (نکاسی) یعنی اس سے مراد ملزمان کو حوالات تھانہ سے نکالنا۔ (امروز) یعنی آج، آج کے روز۔ (امشب) یعنی آج رات۔ (من) یعنی ’’میں‘‘ جب کوئی آفیسر اپنی طرف سے روزنامچے میں رپورٹ لکھا ہے تو میں کی جگہ من لکھے گا۔ (کس) یعنی ملزمان کی تعداد ایک کس، دو کس وغیرہ۔ (حسب گفتہ) یعنی جیسا کہ اس نے بیان کیا، اس کے کہنے کے مطابق۔ (ضرب) یعنی اسلحہ ایمونیشن کی تعداد کو ظاہر کرنے کیلئے مثلاً ایک ضرب پسٹل 10ضرب گولیاں۔ (شاخ) یعنی بکروں، دمبوں، بھیڑوں کی تعداد ظاہر کرنے کیلئے۔ (آریندہ) یعنی آنے والا۔ (فریندا) یعنی بھجوانے والا۔ (مرتبہ و مرسلہ) یعنی تیار کرنے/بھجوانے والا۔ (چشم دید) یعنی موقع کا گواہ۔(الزام علیہ) یعنی جس کسی پر الزام لگایا گیا۔ (مسؤل علیہ) یعنی سول معاملات/ انسدادی۔ (سردست) یعنی فی الحال۔ (روشن رائے عالی) یعنی پہلی ضمنی میں لکھا جاتا ہے کہ حالات مقدمہ بذریعہ FIRروشن رائے عالی جناب ہو چکے ہوں گے یعنی حالات سے آگاہ ہو چکے ہوں گے۔
ایک تھانے کے دورے کے دوران میں نے ایک درخواست گزار سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تھانیدار نے منشی کو کہا کہ مستغیث کو بلائو۔ جب مستغیث آیا تو یہ ایک بیس بائیس سال کا نوجوان تھا اور میں نے اس سے کچھ اس طرح بات چیت کی۔ ’’میاں مستغیث آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے دیکھا کہ تھانیدار اور منشی دونوں زیر لب مسکرا رہے تھے اور میاں مستغیث بھی کچھ کنفیوژ ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ مستغیث فارسی میں درخواست دہندہ کو کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو لیکن مجھے لگتا ہے ہمارے لوگ رپٹ نویسی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے موٹے موٹے ثقیل الفاظ اور خاص طرز تحریر اپناتے ہیں۔ اسی طر ح دیکھا گیا ہے کہ وکلاء برادری بھی جب کوئی پٹیشن دائر کرتی ہے تو سیدھی بات کو بھی موٹے موٹے قانونی الفاظ میں تحریر کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ شاید وجہ یہاں بھی یہ ہی ہے کہ عام آدمی یا سائل اس کا دست نگر ہو اور ان کا بھرم قائم رہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یورپ کا مقبول مذہب 16ویں یا 17ویں صدی تک صرف لاطینی زبان میں پڑھایا لکھا جاتا تھا۔ کسی اور زبان میں پڑھنا یا لکھنا جرم و گناہ تھا۔ دراصل ان کا مذہبی پیشوا دوسری زبان میں چھپنے کا اس لئے مخالف تھا کہ لاطینی زبان صرف وہی جانتا تھا اور اس طرح اس کا جو دل چاہتا مقدس کتاب کا ترجمہ کر کے لوگوں کو بتا دیتا اور یوں اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے تھا۔
ہماری قومی زبان اردو کا قلب بہت وسیع ہے اس میں باآسانی دوسری زبانیں بشمول انگریزی، فارسی اور عربی کے الفاظ استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن جس طرح آج شیکسپیئر کی لکھی ہوئی انگریزی کوئی انگریز نہیں پڑھ سکتا اور ڈپٹی نذیر احمد کی اردو ہمارے بچے سمجھنے سے قاصر ہیں اسی طرح ضرورت ہے کہ تھانہ میں تیار کی گئی تمام رپورٹیں عام فہم اردو میں لکھی جائیں اور اس میں غیرضروری مشکل الفاظ ختم ہوں۔ اگرچہ ایف آئی آر کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بعد ان کو پڑھنا نسبتاً آسان ہو گیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے جس کا عکس ایف آئی آر اور ضمنیوں میں ظاہر بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو زبان کو سہل بنایا جائے تاکہ ہر شخص نہ صرف درخواست دے سکے بلکہ اس کو پڑھ اور سمجھ بھی سکے، اور دوسرا یہ کہ اعلیٰ افسران کو چاہئے کہ تھانہ سے وابستہ لوگوں کی موثر سائنٹفک بنیادوں پر ٹریننگ کا اہتمام کرائیں تاکہ وہ پرانی سوچ اور ڈگر سے باہر آ سکیں۔ چونکہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اس لئے اس کابھی کسی حد تک سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)