بینا صدیقی
دنیا بھر میں پھیلی وبا کورونانے پاکستان میں نوجوانوں کی ایک نئی قسم متعار ف کرائی ہے اور وہ ہے’ آن لائن طالب علم‘ ۔
اس وبا نےطلباء کی وہ عالمی کھیپ پید اکی ہے جو برقی لہروں پر بہتے ہوئے علم کی لہروں کو پکڑنے کی ماہر ہے لیکن بھاگتے دوڑتے ، سوتے جاگتے ان برقی لہروں کو اپنے دماغ میں کیچ کرنے کی گوناگوں صلاحیتیوں کے مالک ان طلباء کے علم کا پیمانہ، روایتی تعلیم حاصل کرنے والوں سے یکسر جدا ہے۔
آن لائن طلباء کی ذہانت کا معیار، روایتی طلباء سے مختلف ہوتا ہے۔ روایتی طلباء میں ذہین وہ ہوتے ہیں جو کلاس میں روزانہ حاضر ہوتے ہیں۔ اساتذہ جو بھی سمجھائیں اسے غور سے سنتے اور نوٹ کرتے ہیں۔ جن کے پاس کتابیں کاپیاں قلم اور دیگر لکھنے پڑھنے کا سامان ہوتا ہے ، جو کلاس میں خاموشی او ر توجہ کا مظاہرہ کرتےہیں۔ کلاس میں پوچھے جانے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتےہیں۔
لیکن آن لائن طلباء کے لئے یہ معیار بدل گیا ہے۔ اب بات "ذہانت "کی نہیں ،"ہوشیاری"کی ہے۔ اب ہوشیار طلباء وہ ہیں جو غائب ہوکے بھی حاضر ہوتے ہیں یعنی آن لائن کنکشن آن کرکے ادھر اُدھر مٹر گشت کرتے یا دوستوں سے بات چیت کرتے رہتے ہیں لیکن استاد کو ان کے نام کے آگے سبزبتی جلتی دکھائی دیتی ہے، جو سوال جواب سے جان چھڑانے کے لیے نت نئے بہانے سوچتے ہیں۔
مثلاً ایک د ن بجلی نہ ہونے کا، دوسرے دن انٹر نیٹ نہ چلنے کا او ر تیسرے دن کتاب نہ ہونے کا بہانہ کر دیتے ہیںلیکن آن لائن کلاس کی خوبیوں کے آگے یہ خامی کچھ نہیں۔ بہر حال آن لائن کلاس نے طلبہ کو رنگا رنگ اور جدید ترین بہانوں کی ایک فہرست مہیا کردی ہے۔
اب استاد کو غور اور توجہ سے سننے کی ذمے داری باہم بانٹ لی جاتی ہے۔ہم جماعت آپس میں طے کر لیتے ہیں کہ اردو کی کلا س میں کون سے چارطلباء ہوشیاری او ر حاضر دماغی کا مظاہرہ کریں گے اور سائنس کی کلاس میں کون، تاکہ جب سائنس کی کلا س ہورہی ہو تو اردو کے حاضر دماغ طلباء چین کی نیند سوتے ہوئے سائنس کی کلاس میں حاضر ہم جماعت دوستوں پر انحصار کرسکیں۔
اسی طرح جدید آن لائن کلاس کے دور میں "کلا س میں حاضری"کا مطلب کسی ایک ہمدرد او ر باوفا دوست کی کلاس میں حاضری ہوتی ہے جو تمام غیرموجود دوستوں کی حاضریاں لگوادے۔ ہوم ورک کے سلسلے میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس جدید تیکنیک نے نوجوان طلباء میں محبت، رواداری ، بھائی چارے اور ہم آہنگی کا ایسا جذبہ پیدا کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کہاں و ہ روایتی کلاسیں جس میں ایک ایک نمبر لینے کے لئے باہمی رقابت او ر جلن کے جذبات فروغ پاتے تھے، ایک دوسرے سے چھُپ چھُپ کے نوٹس بنائے جاتے تھے، کہ کہیں کوئی دوسرا ہم سے نوٹس نہ مانگ لے اوران کے برابر یا زیادہ نمبر نہ حاصل کر لے او ر کہاں آن لائن کلاس میں ایک طالب علم ہوم ورک کرتا ہے ۔
تحریری امتحان کے جوابات لکھتا ہے او ر باقی تمام طلباء کو تصویر کھینچ کے بھیج دیتا ہے، باقی سب وہی اپنی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں لکھ کے تصویریں کھینچ کے استاد کو بھیج دیتے ہیں۔ استاد کو علم ہوتا ہے کہ کلاس کے اکثر بچوںمیں اتنی ذہنی ہم آہنگی ہے کہ ایک جیسے غلط جوابات ہی نہیں بلکہ ایک جیسی طرزِ تحریر، پس منظر میں ایک جیسے پردے لٹکا کے ہوم ورک کی تصاویر کھینچی ہیں۔ یہاں طلباء کی ہوشیاری ، استاد کی استادی سے مات کھا جاتی ہے اور استاد محتر م ان کی ہم آہنگی کا مکمل خیال رکھتے ہوئے ا ن سب کو بالکل ایک جیسے قطر کے "صفر"عطا کرتے ہیں۔
اکثر طلباء کے ناموں کے آگے سبز بتیاں تو ہوتی ہیں لیکن ان کے دماغ میں موجود بھوسے کا رنگ سبز سے زرد ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لئے جب کوئی سوال استاد کی طرف سے اچانک پوچھ لیا جائے تو اس کے جواب میں سبز بتیوں کے پیچھے بیٹھے چہرے زرد پڑجاتے ہیں، پھر جیسے تیسے کچھ ہمت کرکے کچھ طلباءکتا ب کی طرف ترچھی نگاہ ڈالتے ہوئے جواب دیتے ہیں، جن میں سے اکثر جواب اس لئے غلط ہوجاتے
ہیں کہ کتاب کا صفحہ غلط کھلا ہوا ہوتا ہے۔ پہلے سے اعلان شدہ امتحان کی تیاری تو بہت آسان ہوتی ہے لیکن اچانک امتحان میں اکثر آن لائن طلباء دھوکہ کھاجاتے ہیں۔
آن لائن تعلیم یہ خیال بھی جگہ پارہا ہے کہ آن لائن طلباء کی ڈگریوں پر ایسے ہی نشان بنایاجائے جیسے بچپن میں کھیلتے ہوئے کسی چھوٹے یا نکمے بچے کی "کچی باری"رکھی جاتی تھی ،کیونکہ کچھ آن لائن طلباء تو کرونا کی مہربانی سے اگلی جماعتوں میں ایک ہی جست میں جاپہنچے اور اس کے لئے انہیں سالانہ امتحان کا دریا عبور نہیں کرنا پڑا۔ ایسےطلباء جست لگانے کے باوجود سست اور کاہل ہوتے ہیں او ر اگلی کلاسوں میں بھی ایسے ہی کسی جھولے کے منتظر ہوتے ہیں ، جس کی پینگ انہیں اگلی کلاس میں جاچھوڑے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگریہ ہر کلاس بنا امتحان پھلانگتے رہے تومستقبل میں کیا کریں گے، جہاں زندگی ایک کڑا امتحان لینے کو تیار ہوگی اور وہ آن لائن امتحان جیسی آسان ہرگز نہیں ہوگی۔