• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

1996کے دوران جب طالبان کی حکومت وجود میں آئی تو توقعات کا الائو جل اُٹھا۔نوید سنائی دی کہ قانون کی یکساں حکمرانی، عدالتوں سے بلاتفریق انصاف، حکمرانوں کی جوابدہی اور حکومتی اہلکاروں کا بےلاگ احتساب، سرکاری حُسن انتظام میں شامل ہوگا۔ طالبان کے حامی کہتے ہیں کہ پیش قدمی اِنہی خطوط پر جاری تھی مگر مغربی دُنیا نے اسلام دُشمنی میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا۔ عالمی میڈیا اُن کے کنٹرول میں تھا اور حقیقت کے برعکس طالبان کے طرزِ حکمرانی کو اِس طرح پیش کیا گیا کہ وہ موجودہ زمانے کیلئے نامناسب اور ناموزوں دکھائی دے۔دُنیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کیا؟ ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کا ہر ملک بین الاقوامی معاہدوں اور مشترکہ عالمی قوانین کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ کسی نظریاتی مملکت پر ناپسندیدہ سمجھوتے کئے بغیر عالمی قبولیت کا حصول ممکن نہیں۔ دُوسرے ممالک سے تجارت کیلئے WTOکی رُکنیت اور معاہدوں سے اتفاق، سرحدوں کے پار سامانِ تجارت کی سہل آمدورفت کے لئے، ٹی آئی آر کنونشن کی تصدیق، دُوسرے ملکوں سے فضائی رابطوں کے لئے بین الاقوامی شہری ہوا بازی کے ضابطوں پر عمل، اقوامِ متحدہ کے بنائے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کی رُکنیت لازم ہو جاتی ہے۔

پہلے ایڈیشن کے پانچ سالہ دور میں طالبان نے نہ تو اِس سمت میں کوئی پیش رفت کی اور نہ ہی وہ بین الاقوامی برادری میں اپنی حکومت تسلیم کروانے کی شعُوری کوشش کرتے دکھائی دیے بلکہ بامیان میں پہاڑ کو کاٹ کر بنائے گئے صدیوں پرانے گوتم بُدھ کے مجسمے کو تباہ کئے جانے سے پہلے، بُدھ مت کے پیروکار، دُنیا کے کم و بیش تمام ممالک، بین الاقوامی ادارے اور غیرسرکاری عوامی تنظیمیں اپیل کرتی رہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ پاکستان نے بھی اپنا اعلیٰ سطحی وفد اُن کی خدمت میں بھیجا۔ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان کے ایک گزشتہ حکمران، محمود غزنوی جو پوری دُنیامیں بُت شکنی کی علامت کے طور پر مشہور ہیں، نے بھی اپنے دورِ حکومت میں بامیان کے اِس تاریخی ورثے کو نقصان نہیں پہنچایا۔ طالبان اپنی سوچ کی سچائی میں اتنے مگن اور پُراعتماد تھے کہ اُنہوں نے ہر درخواست رد کر دی۔ دُنیا اُن کے بارے کیا سوچتی ہے، اُنہیں پروا نہیں تھی۔

اِس طرزِ عمل کو ہم اُن کی قیادت کا قصور نہیں سمجھتے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی مخصوص درس گاہ سے نظریاتی تعلیم کے ذریعے ذہنوں میں عقائد راسخ ہو جائیں تو فارغ التحصیل طالب علموں کے لئے، کوچۂ سیاست کے پیچ و خم سے گزرنا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ پہلے پہل جب لائوڈ اسپیکر ہندوستان میں وارد ہوا تو تمام دینی جماعتوں نے اِس ’’آلۂ مکبرالصوت‘‘ کے ذریعے اذان اور نماز کی ادائیگی ممنوع قرار دی۔ تصویر کھِنچوانے اور میڈیا پر نمودار ہونے کی اجازت بھی صرف چند دہائیاں پہلے ملی۔ پاکستان کا پہلا آئین بننے سے پہلے جسٹس منیر اور جسٹس کیانی پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی نے 1954کے دوران پاکستان کی تمام دینی جماعتوں سے دریافت کیا کہ پاکستان میں آئندہ اسلامی حکومت کا طرزِ حکمرانی کیا ہونا چاہئے؟ کم و بیش تمام جماعتوں کی مشترکہ رائے تھی کہ پاکستان کے آئندہ آئینی انتظام میں، غیرمسلم کسی سرکاری عہدے کیلئے نا اہل اور اپنے تحفظ کے لئے، جزیہ دینے کے پابند ہوں گے۔ اِسی طرح ایک سوال کے جواب میں جید علما کا فرمان تھا کہ جنگ کے دوران قیدی بنائی جانے والی عورتیں، لونڈیاں اور مرد، غلام بن جائینگے۔ اُنہیں آزاد کرنے کیلئے اسلامی احکامات کے علاوہ اور کسی طریق پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی جماعتوں کے اِن رہنمائوں کو جب یاد دلایا گیا کہ پاکستان جنگی قیدیوں کے ضمن میں جنیوا کنونشن کے عالمی انتظام کا پابند ہے تو اُن کا فرمان تھا کہ ہمارے دین کے رہنما اُصول اِن پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ مثالیں دینے سے نہ تو کسی دینی جماعت کی دل آزاری مقصود ہے اور نہ ہی اُن کے نظریات پر تبصرے کی خواہش۔ مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اِن جماعتوں اور رہنمائوں کی سوچ میں اتنی لچک پیدا ہو گئی کہ اُنہوں نے پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کو تسلیم کر لیا۔ قاری خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ حالات کا جبر تھا یا اجتماعی سوچ میں یہ خاموش تبدیلی، وُسعتِ فکر کے اِرتقائی عمل کا قدرتی نتیجہ تھی۔

اِس سلسلے میں مجھے طالبان حکومت کا پہلا ایڈیشن یاد آ رہا ہے۔ اُن دنوں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں فرقہ وارانہ خون ریزی عروج پر تھی۔ ایک گروہ کے سرغنہ، ریاض بسرا اور اُس کے ساتھیوں کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اطلاع ملتی کہ واردات کے بعد وہ افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔ بار بار اِن ہولناک واقعات کا اعادہ ہونے اور ریاض بسرا گروہ کے افغانستان میں چھُپنے پر اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف پھٹ پڑے۔ اُن کا طالبان مخالف بیان آنے پر وفاقی حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی وفد افغانستان بھیج کر ریاض بسرا اور اُس کے گروہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ افغان حکومت نے فہرست میں دئیے ہوئے ملزمان کی موجودگی سے لاعلمی ظاہر کی۔ ایک سفارت کار نے جو اُس وفد کا حصہ تھا، کئی برس بعد مجھے بتایا کہ وفد کی واپسی کے بعد ایک طالبان عہدیدار نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہم اِس گروہ کو ملزم ہی نہیں سمجھتے۔

آج کل سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا طالبان افغانستان کے دُوسرے فریقین سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں یا خانہ جنگی جاری رہے گی؟ گمان ہے کہ بہت پہلے کوشش کی جاتی تو سمجھوتہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ تاہم امریکہ اور نیٹو کے تحت افغانستان میں ڈالروں کی ریل پیل اور افواج کی موجودگی کی بنیاد پر قائم کی گئی افغان حکومت، طالبان سے سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ میڈیا میں طالبان کو بڑا اور پاکستان کو چھوٹا ولن ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ مقصد خوف کی فضا کو قائم رکھنا تھا۔ اِس طرح وہ امریکہ اور نیٹو کی تحفظاتی چھتری کے نیچے ،اپنے لئے من و سلویٰ کے نزول کا سلسلہ مستقل طور پر جاری رکھنا چاہتے تھے۔ اِس منصوبے میں ہندوستان اِس لئے شامل ہوا کہ پاکستان میں بدامنی کو فروغ دے کر، مغربی طرف سے گھیرا جائے۔ پاکستانی حکومت پر طالبان کی سہولت کاری کا الزام لگا کر اُسے خرابیٔ حالات کا ذمہ دار بنایا گیا۔ چونکہ بنیاد ہی بدعنوانی اور بد نیتی سے عبارت تھی، اِس لئے اندازہ ہے کہ جلد یا بدیر، اِس حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اگر ایسا ہوا تو یہ تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہو گا کہ دوسرے ایڈیشن میں طالبان کی حکومت دُنیا کے سامنے ایک اسلامی حکومت کا بہترین چہرہ پیش کرے۔ اندازہ ہے کہ خطے کے دُوسرے ممالک میں آنے والی تبدیلیاں اور افغانستان کے لئے ترقی کے نئے معاشی موقعوں سے استفادہ کرنے کا امکان، طالبان کی نئی قیادت کو اپنے پہلے ایڈیشن کے طرزِ حکمرانی میں تبدیلی پر مائل کر دے گا۔ اِس گمان کے محرکات اور نئے امکانات کا ذکر، اِس سلسلے کے آئندہ اور آخری کالم میں کیا جائے گا۔(جاری ہے)

تازہ ترین