• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹوکیو کے وہ علاقے جہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں، جہاں کے ڈسکوز دنیا بھر میں مشہور ہیں، وہاں سے جب تھک ہار کر منچلے صبح سے قبل اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے تو قریب موجود ریلوے اسٹیشن پر سفید پوشاک میں ملبوس ایک بزرگ ان جاپانی اور غیر ملکی شہریوں کو اپنی مسحور کن مسکراہٹ کے ساتھ اپنی جانب آنے کی دعوت دیتے۔ آدھے نشے میں مست شہری بھی اس بزرگ شخصیت کو دیکھ کر احتراماً رک جاتے ، جس کے بعد وہ بزرگ جاپانی زبان میں انہیں سلام پیش کرتے ، انہیں بتاتے کہ اس جہاں کا مالک ﷲ تعالیٰ ہے، انہیں دین اسلام میں آنے کی دعوت دیتے۔ابھی ٹھیک طرح سے صبح نہ ہوئی ہوتی تو ٹرینوں کی آمد ورفت میں بھی کچھ وقت باقی ہوتا، منچلوں کی بڑی تعداد اس بزرگ کے گرد جمع ہوجاتی، دین اسلام کی دعوت کی باتیں غور سے سنتی۔ اسی دوران یہ بزرگ اپنی جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر فرداً فرداًان جاپانی شہریوں میں تقسیم کرتے جس پر جاپانی زبان میں ان کے نام کے ساتھ کلمہ طیبہ بھی تحریر ہوتا اور وہ ہر جاپانی سے درخواست کرتے کہ وہ اس تحریر کو زور سے پڑھے جب کسی جاپانی کی زبان سے کلمہ طیبہ ادا ہوتا تو بزرگ کی خوشی دیکھنے کے قابل ہوتی، یہ عمل ہر روز جاری رہتا صرف علاقہ بدلتا ، یہ تھے شیخ نعمت ﷲ ترکی، سرخ و سفید رنگت، بھرپور سفید داڑھی وبھنویں، لباس بھی بھرپور سفید، چہرے پر ہر وقت جاذبِ نظر مسکراہٹ، جہاں آپ سے نظریں ملیں وہیں مسکرا کر آپ کے ہاتھ دعا کے لئے بلند ہونا ان کی عادت میں شامل تھا۔ اکثر اوقات اپنے اخلاق اور باتوں سے کسی نہ کسی جاپانی مرد یا خاتون کو مسجد لے ہی آیا کرتے، وضو کراتے،مسجد کا دورہ کراتے، انہیں دین اسلام میں آنے کی دعوت دیتے، کوئی خاتون مسلمان ہوتیں تو انکانیک اور شریف مسلمان مرد سے نکاح کرانے کی کوشش بھی کرتے، غرض ہزاروں جاپانی شہریوں کو اپنی محنت، اخلا ق اور کوششوں سے مسلمان کرچکے تھے۔ میرے کئی پاکستانی اور ترک دوست شیخ نعمت ﷲ کو فجر کی نماز کے بعد مختلف ریلوے اسٹیشنز پر لے جانے کی ذمہ دار یاں سنبھالے ہوئے تھے۔ شیخ نعمت ﷲ کا تعلق ترکی سے تھا وہ پورے جاپان میں انتہائی شہرت رکھتے تھے۔

میری جب بھی شیخ نعمت ﷲ سے ملاقات ہوتی دل چاہتا کہ انہیں دیکھتا ہی رہوں، یاکبھی یہ سوچتا کہ جنت میں کس قسم کے لوگ جائیں گے تو ہمیشہ شیخ نعمت ﷲ ترکی کا چہرہ میرے سامنے آجاتا۔ وہ ترک زبان کے علاوہ عربی، انگریزی اور جاپانی زبان بھی روانی سے بولتے تھے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی مساجد میں بھی کئی سال بطور امام ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے تھے، پاکستانیوں کی جانب سے قائم کی جانیوالی مساجد میں جایا کرتے، انہیں تلقین کیا کرتے کہ دین اسلام کی تعلیمات اپنی شخصیت میں ظاہر کریں تاکہ جاپانی آپ سے متاثر ہوکر دین اسلام میں شامل ہوں۔ شیخ نعمت ﷲ صفائی کا درس دیتے کہ صفائی نصف ایمان ہے، یہ نہ صرف ﷲ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ کو بہت پسند ہے، جاپانی قوم کو بھی اپنی صفائی کی عادت سے متاثر کریں، نظم و ضبط کی تلقین کیا کرتے کہ مساجد کے باہر اپنی گاڑیوں کو اس ترتیب سے پارک کریں کہ اس میں بھی دین اسلام کی نظم و ضبط کی تعلیمات نظر آئیں۔ اگر آپ اپنے کردار اور شخصیت سے ہی جاپانیوں کو متاثر نہ کرسکے تو اسلامی تعلیمات تو بعد کی بات ہے۔ شیخ نعمت ﷲ مسلمان ہونے والے جاپانی شہریوں کی بہت قدر کیا کرتے اور ان کا بھرپور خیال رکھنے کی تلقین کرتے کہ یہ جاپانی مسلمان ہمارا اثاثہ ہیں جن کی بدولت دین اسلام جاپان میں پھیل سکے گا۔ چند برس قبل اپنی پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے سبب شیخ نعمت ﷲ جاپان سے ترکی منتقل ہوگئے تھے اور اب گزشتہ روز اطلاع ملی کہ شیخ نعمت ﷲ سو سال سے زائد کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور اس دنیا میں ان جیسے بہت سے بزرگ باقی رکھے، بلاشبہ اس دنیا کو شیخ نعمت ﷲ جیسی بزرگ ہستیوں کی بہت ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین