تحریر: نرجس ملک
مہمان سہیلیاں :ثناء خان، لائبہ علی، صنم بٹ
ملبوسات: ہیر بائے ایچ ایس
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی : عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
ڈاکٹر شاہدہ حسن کے وطنِ عزیز سے متعلق بہت خُوب صُورت اشعارہیں ؎ اے ارضِ پاک، تجھ سی متاعِ حسیں کہاں.....دھڑکن جو میرے دل کی ہے، ایسی زمیں کہاں.....چھانوں اگر یہ ریگِ جہاں میں تمام عُمر.....جو تجھ میں ہیں نہاں، وہ ملیں گے نگیں کہاں۔ اکثرفیس بُک پر ڈاکٹر شاہدہ کی کئی شان دار پوسٹس نظروں سے گزرتی رہتی ہیں، جن میں اُن کی طبعِ حسّاس اور جذبہ حبّ الوطنی پوری جولانیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ وقت و حالات کا نوحہ بھی لکھیں، تو کبھی مایوس و نا اُمید نہیں ہوتیں، اِک ننّھا سا دِیا سدا ٹمٹماتا ہی رہتا ہے۔ حالاں کہ عمومی طور پر پاکستانی قوم کا مسئلہ یہ ہےکہ اُس نے اپنی مادرِ گیتی، ارضِ وطن، دھرتی ماں سےتولاتعداد اُمیدیں،توقعات، خواہشات وابستہ کر رکھی ہیں، مگر خود اتنا بھی کرنے کو تیار نہیں کہ جوس کا خالی ڈبّا، اسنیکس کا خالی ریپر ہی گاڑی کےشیشےسے باہر پھینکنے کے بجائے چند قدم کےفاصلے پر موجود کسی ڈسٹ بِن میں ڈال دے۔
شہر بھر کے ڈسٹ بنز ’’یوزمی، یوز می…‘‘ کی فریادیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں، مگر اُن کے ارد گرد تو پھر کچھ کچرادکھائی دےجائےگا، لیکن اندر سےیہ بڑے بڑے گاربیج بِنزخالی پڑےمنہ ہی چڑا رہے ہوتےہیں۔ جیسے اولاد کو اپنی ماں سے تو بھرپور ممتا کے ساتھ سب کچھ درکار ہوتاہے۔ ہر بچّے کو ماں کی بےپناہ محبّت و شفقت ہی نہیں، پوری توجّہ بھی چاہیے، لیکن اگر کبھی ماں فسردہ و پریشان، کسی دُکھ تکلیف میں مبتلا ہے، اچھا محسوس نہیں کررہی، روگی، بیمار ہے، تو اولاد کوکبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ اُس کا بھی یہ فرض بنتا ہےکہ وہ ماں کا نہ صرف علاج معالجہ، بہترین تیمار داری کرے بلکہ اُس کی ہر ممکن دل جوئی و دل بستگی کے لیے بھی کمربستہ ہو۔ جب کہ ماں کے دُکھ، آزار کا سبب بھی خود اولاد ہی ہوتی ہے۔
یہ ارضِ پاک بھی ہماری ’’ماں‘‘ ہے۔ وہ سرفراز شاہد نے کہا ہے ناں کہ ؎ سرورِ جاں فزا دیتی ہے، آغوشِ وطن سب کو.....کہ جیسے بھی ہوں بچّے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں۔ اور پروین شاکر نے بھی ؎ بوجھ اٹھائے پھرتی ہے ہمارا اب تک.....اے زمیں ماں تِری یہ عُمر تو آرام کی تھی۔ تو بھئی، ہمیں تو اتنی بھی توفیق نہیں کہ ماں کے آرام کی عُمر ہی میں اُس کی عُمر بھر کی محنتوں، مشقتوں، عبادتوں، ریاضتوں، آشفتہ سری و آبلہ پائی کی کچھ قدر کرلیں۔ اُس کی کسی ایک رات ہی کا قرض چُکتا کرنے کی کوئی سعی کریں کہ اپنا تو یہ حال ہے ؎ بس اک روش پہ جیے جارہے ہیں برسوں سے۔ حالاں کہ اگر ہم ایمان داری سے اپنے دِلوں پہ ہاتھ رکھ کے کبھی سوچیں، تو دنیا کی کتنی اقوام کی نسبت ہم کس قدر خوش نصیب، قسمت کے دھنی ہیں کہ لگ بھگ چار نسلوں سے نعمتِ آزادی سے مالا مال و سرشار ہیں۔
دنیا کے نقشے پہ ’’اسلامی جمہوریہ ٔپاکستان‘‘ کے نام سے اپنا ایک الگ خطّہ زمیں، یک سر جداگانہ شناخت و حیثیت رکھتے ہیں۔ 8ارب انسانوں کی بھیڑ میں ’’پاکستانی‘‘ کے ٹیگ سے جانے پہچانے جاتےہیں۔ ہمارا اپنا قومی پرچم، قومی ترانہ، قومی کھیل، کرنسی، پھل، پھول، گرین پاسپورٹ ہے۔ ہم اس اعتبار سے بھی بہت منفرد و ممیّز ہیں کہ ہم نے دینِ اسلام اور دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ایک طویل جدوجہد کےبعد طوقِ غلامی سےنجات پائی۔ ہماری اپنی تہذیب و ثقافت، دینی و معاشرتی اقدار و روایات، خالص، اُجلی، سَچّی و سُچّی رسوم و رواج ہیں۔
ہمیں تو کسی کی تقلید و اِتبّاع کی کوئی حاجت ہی نہیں کہ ہمارا تو آفاقی دین ہی ’’دینِ کامل‘‘ ہے۔ ہمارے پاس قرآن اور اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صُورت رہنمائی و راہ بَری کی وہ کلید موجود ہے کہ جس سے دنیاوی و اُخروی زندگی کا زنگ آلود سے زنگ آلود قفل بھی با آسانی کُھل سکتا ہے۔ اُس پر طرّہ یہ کہ ہمیں دنیا جہاں کی نِعم سے مالا مال جو خطّہ ٔ ارض عطا کیا گیا ہے، وہ عین مہینوں کے سردار، رمضان المبارک کی مبارک ترین شب، 27ویں شب کو کیا گیا۔ تو ہم تو بلاشبہ بہت فخر و غرور سے سر اُٹھا کے کہہ سکتے ہیں کہ ؎ سُناتی ہے جہاں بادِ صبا پیغامِ آزادی.....چھلکتے ہیں جہاں ہر سُو چمن میں جامِ آزادی.....جہاں گوہرفشاں ہے ہر طرف گلفامِ آزادی.....یہاں ہستی برنگِ باغ جنّت مُسکراتی ہے.....یہ پاکستان، جہاں صبحِ آزادی مُسکراتی ہے۔
وطنِ عزیز کی بات چِھڑ جائے تو پھر بات دُور تلک جاتی ہے۔ قصّہ مختصر، اِک روز کا ’’جشنِ آزادی‘‘ بھی ضرور منائیں کہ زندہ قومیں، اپنے تہوار بھی زندہ رکھتی ہیں، لیکن اس ماں مٹّی کا ہم پہ جو ڈھیروں ڈھیر قرض چڑھا ہے، اُسے بھی قسطوں ہی میں سہی، اُتارنے کی کچھ سبیل کریں کہ اِمسال ہم اپنا 75 واں یوم آزادی(ڈائمنڈ جوبلی) منانے جا رہے ہیں اور بقول راغب مراد آبادی ؎ ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے.....اس کا ہر سودو زیاں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے.....قائد اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے.....وَرثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ وقت کا یہ تقاضا متحد ہوجائیں ہم.....کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے.....سوچ تو گلشن کی بربادی کا کیا ہووے گا حال.....شاخِ گل پر آشیاں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے.....ہیں محبّت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف.....اُن کا فیضِ بیکراں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔
آپ سب کو ہماری طرف سے ’’عیدِ آزادی‘‘ بہت بہت مبارک ہو۔ یہ چھوٹی سی ’’ہری بھری بزم‘‘ تو بس ایک تحفہ محبّت، رمزِ یاد دہانی ہے۔ کوشش کیجیے گا کہ اور کچھ نہ بھی کرسکیں تو اس یومِ آزادی اِک عُمر رسیدہ، بوڑھی ماں کے قدموں میں بیٹھ کے مرتے دَم تک اُس کے وفادار رہنے کا عزم ضرور دہرائیں۔ ربّ کے حضور نوافلِ شکرانہ ادا کرکے ’’ماں دھرتی‘‘ کی صحت و سلامتی، امن و خوش حالی، تعمیر و ترقی کے لیے پورے خشوع و خضوع سے دُعا کریں کہ ؎ خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے.....وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو.....یہاں جو پھول کِھلے، وہ کِھلا رہے برسوں…یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو …خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن.....اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو.....خدا کرے کہ مِرے اِک بھی ہم وطن کے لیے.....حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔