ہنری کسنجر نے کچھ سال پہلے ورلڈ آرڈر کے نام سے ایک کتاب لکھی جس سے دنیا کو چلانے کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے یہ کتاب کچھ عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ 15اگست 2021(اور 15اگست کی تاریخ کی بہت زیادہ علامتی اہمیت ہے جس طرح آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کیلئے 16دسمبر کی تاریخ کا ایک علامتی پیغام تھا) کو طالبان کے کابل پر قبضے کو ہنری کسنجر کے ورلڈ آرڈر کے تناظر میں سمجھنے سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں کیا ہوا اور آگے کیا ہو گا۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک جب تاریک دور کی جنگوں سے تنگ آ گئے تو انہوں نے ’’طاقت کے توازن‘‘ کو خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنا کر بین الاقوامی امن کی بنیاد رکھی۔ تین چار سو سال سے یہی اصول یورپی سوچ پر غالب ہے۔ اس اصول کی بنیاد یہ ہے کہ بین الاقوامی امن صرف تب قائم رہ سکتا ہے جب کوئی بھی ریاست زیادہ طاقتور نہ ہو کیونکہ اگر کوئی ریاست دوسری ریاستوں سے زیادہ طاقتور ہو گی تو جلد یا بدیر یہ پھیلاو کی پالیسی اپنائے گی اور حالات بین الاقوامی جنگ کی طرف جائیں گے۔ اسی طرح وہ کسی ریاست کو زیادہ کمزور نہیں ہونے دیتے۔ اس تصور کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہر ریاست کو دوسری ریاست کی حاکمیت، اس کے مذہنی و سماجی نظریات اور اس کی تہذیب کا احترام کرنا چاہئے، دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ’’طاقت کے توازن‘‘ کے تصور کے تحت ہی یورپ میں جدید ریاست کا قیام وجود میں آیا اور ریاست کو بین الاقوامی نظام کی اکائی کے طور پر قبول کیا گیا اور دنیا (اس وقت ان کے لئے یورپ ہی دنیا تھا) میں امن قائم ہوا۔
امریکہ کو یورپی سوچ ورثے میں ملی۔ یہ سوچ عملیت پسندی پر مبنی ہے لیکن امریکی صدر وڈرو ولسن نے اس سوچ میں آئیڈیل ازم کی آمیزش کی جو آج تک امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا حصہ ہے۔ ولسن کے مطابق امریکہ کا ایک مشن ہے کہ وہ شخصی آزادیوں اور جمہوریت کے تصور کو تمام دنیا میں پھیلائے تاکہ ساری دنیا کے انسان جمہوریت اور شخصی آزادیوں جیسی نعمتوں سے مستفید ہوں۔ ’’طاقت کے توازن‘‘ کی عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دیا جائے لیکن ولسن کے آئیڈیل ازم کے تحت امریکہ دوسرے ملکوں میں جمہوری اداروں کو پروان چڑھانے کیلئے کوششیں کرتا ہے۔ پہلا تصور ریاستوں کو اکائی سمجھتا ہے جبکہ دوسرا تصور پوری دنیا کو ایک آفاقی جمہوری اکائی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ کی پالیسی کا زیادہ جھکائو پہلے تصور کی طرف ہی ہے اسی وجہ سے آج دنیا میں دو سو سے زیادہ ریاستوں کا وجود ممکن ہے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے مختلف طاقتوں کے توازن کے ذریعے دنیا میں امن قائم ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ امریکہ کے اندر ایک دبا ہوا آئیڈیل ازم اقوامِ متحدہ کو پوری دنیا کی آفاقی جمہوری حکومت کا پیش خیمہ تصور کرتا ہے۔ امریکی پالیسیوں میں جو دو رنگی، تضاد اور کبھی کبھی پالیسی شفٹ نظر آتا ہے، اس کے پیچھے عملیت پسندی اور آئیڈیل ازم کی طرف جھکاؤ میں تبدیلی کار فرما ہوتی ہے لیکن امریکہ بہرحال ’’طاقت کے توازن‘‘ کے اصول کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسی لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے پورپ اور جاپان کی طاقت کو خود بحال کیا۔
کسنجر کے بقول بین الاقوامی تعلقات کے ’’طاقت کے توازن‘‘ کے اس یورپی تصور کے برعکس امریکہ جمہوری آئیڈیلزم پھیلائو پر یقین رکھتا ہے۔ اسی طرح کمیونزم پھیلائو پر یقین رکھتا تھا اسی لئے امریکہ نے اسکے پھیلائو کو روکنے کیلئے سرد جنگ لڑی۔ سرد جنگ کے بعد دنیا میں تین نئے اہم کھلاڑی ابھرے، چین، بھارت اور ’’سیاسی اسلام‘‘، جو سارے کے سارے پھیلائو پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ تینوں کھلاڑی ’’طاقت کے توازن‘‘ کی بجائے آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی یہ تینوں کھلاڑی دوسری ریاستوں اور نظریات کے وجود کو برداشت نہیں کرتے۔ چینی تصور کے مطابق چین دنیا کا نقطہ ماسکہ ہے اور ساری دنیا اس کے تابع۔ انڈین تصور میں ہر ریاست اور نظریے کو ہندو ازم کی چھتری کے نیچے ضم ہو کر ایک اکائی بننا ہے۔ اور ’’سیاسی اسلام‘‘ کے تصور کے مطابق دنیا کا ایک حصہ دارالامن ہے جو اسلام کے کنٹرول میں ہے اور دوسرا حصہ دارالحرب جسے بزور طاقت پہلے حصے میں شامل کر کے ایک اکائی بنانا ہے۔
امریکہ ورلڈ آرڈر ’’طاقت کے توازن‘‘ پر یقین رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس تصور سے پیدا ہونے والے امن کو انسانیت کے آفاقی جمہوری مستقبل میں ارتقا کا خواب دیکھتا ہے۔ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کو بھارت میں ہندو توا اور مودی کے فاشسٹ ابھار نے کمزور کیا؛ چین میں روڈ اور بیلٹ منصوبہ، سی پیک جس کا ایک حصہ ہے، جینی پھیلائو کے خطرات کا الارم بجا رہا ہے اور پہلے مشرقِ وسطیٰ اور اب افغانستان میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کے جہاد نے جمہوریت کے بجائے جہادی پھیلائو کو جنم دیا ہے۔ بین الاقوامی حالات امریکی ورلڈ آرڈر کا جھکائو’’آفاقی جمہوری اکائی‘‘ کے خواب کی بجائے زیادہ سے زیادہ ’’مخالف اور متصادم ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن‘‘ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کیلئے اچھی خبر نہیں ہے۔ ایک طرف مغربی دنیا پاکستان کو افغانستان میں بالواسطہ امریکی ورلڈ آرڈر کو کمزور کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہرا رہی ہے اور تادیبی کارروائیاں کر سکتی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو افغانستان کی طرف سے ’’سیاسی اسلام‘‘ کے جہادی پھیلائو کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے اور تیسری طرف بھارت کا بڑھتا ہوا فاشزم اور عالمی اثر و رسوخ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے موقعے تلاش کر رہا ہے۔ پاکستانی ریاست کا مستقبل ایک جدید ترقی یافتہ مضبوط ریاست کا ہو گا یا افغانستان والا یہ فیصلہ اب بین الاقوامی حالات کریں گے۔ ہمارے پاس فیصلوں کا جو تھوڑا بہت اختیار تھا، ہم ان کا دانشمندانہ استعمال نہیں کر سکے۔