• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان سخت ناراض ہیں کہ سابق وزیراعظم کے نواسے جنید صفدر کے نکاح کے موقع پر سینٹرل لندن کے ہوٹل کے باہر بھرپور کرائوڈ کیوں اکٹھا نہیں ہو سکا اور بدنامی مفت میں ہمارے حصے میں آئی چنانچہ اس نااہلی کی ذمہ داری ’’پی ٹی آئی‘‘ برطانیہ چیپٹر پر عائد ہوتی ہے بہرکیف یہ ایک صحافی کی خبر ہے جس کی تصدیق تاحال نہیں ہو سکی۔ جنید صفدر مریم نواز اور ن لیگ کے ’’ایم این اے‘‘ صفدر اعوان کے بیٹے ہیں۔ ان کے نکاح کی تقریب گزشتہ ہفتے لندن میں ہوئی۔ 

احتساب بیورو آف پاکستان کے سابق سربراہ سیف الرحمٰن کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی شادی کے اس موقع پر سیف الرحمٰن، اسحاق ڈار اور نواز شریف بھی موجود تھے، تقریب میں مسلم لیگ (ن) برطانیہ کی قیادت سمیت کسی قابلِ ذکر شخصیت کو دعوت نہیں دی گئی تھی بس خاندان کے قریبی افراد اور بعض ملی جلی کھرب پتی شخصیات موجود تھیں.

اگرچہ بظاہر اس دفعہ ’’پی ٹی آئی‘‘ یوکے کی طرف سے ہوٹل کے باہر کسی قسم کے احتجاج کی کال نہیں دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود چند افراد نے ہوٹل کے باہر نعرے بازی ضرور کی۔ پاکستان کی حد تک ماضی میں مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان جو کچھ بھی ہوتا رہا یا آج بھی ہو رہا ہے.

اس کے برعکس بیرونی ممالک میں یا کم از کم لندن میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائم ونگ سرعام بلکہ نجی محافل میں بھی بازاری زبان استعمال کرنے سے حتیٰ الامکان اجتناب کرتے تھے حالانکہ اِن دنوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود لندن میں کسی کے گھر کے باہر یا ہوٹل، ریستوران یا راہ چلتے کسی مخالف پر آوازے کسنے اور فقرے چست کرنے کی قبیح روایت قطعاً نہیں تھی لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ نے گزشتہ کوئی سات آٹھ سال سے جس طرح کا غیرمہذب رویہ اپنے سیاسی مخالفین کیلئے روا رکھا ہے، آج اس کے اثرات ملکی سرحدوں سے نکل کر یورپ کے تہذیب یافتہ معاشروں میں بھی سرایت کر چکے ہیں.

اب یہ صورتحال ہنسی مذاق سے بڑھ کر انتشار، غصے اور بدتہذیبی میں بدل چکی ہے یعنی حد ہی ہو گئی کہ کوئی کافی پی رہا ہے، کوئی کھانا کھا رہا ہے، فٹ پاتھ پر چل رہا ہے، گھر سے باہر نکل رہا ہے یا گھر کے میں موجود ہے، چند افراد حقائق سے بےخبر ہوتے ہوئے تفریحاً حساب دو اور چور ڈاکو کے نعرے لگا کر خوا مخواہ برطانیہ کے سبھی پاکستانیوں کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی موشگافیوں سے لاعلم لوگ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ دو سال بعد اسی قسم کا PERCEPTION یاNARRATIVE ان کے یا موجودہ حکومتی لیڈروں کیلئے بھی بنا یا جا سکتا ہے اور وہ بھی لندن، دبئی یا کسی اور ملک میں جلاوطنی گزارنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ 

انہیں علم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں سیاسی بساط بچھانے اور الٹ دینے کا نہ تو کوئی وقت ہوتا ہے اور نہ کوئی قانون بلکہ اس کام کیلئے تو شرافت، بدنامی اور نیک نامی کو بھی دخل نہیں بس ’’کرسی‘‘ سے اترنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ اوہو! یہ بندہ تو ’’ایسا‘‘ تھا لہٰذا اگر یہی روایت مستعمل ٹھہری تو پھر کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا اور کوئی کافی پینے، کھانا کھانے اور مسجد تک جانے کیلئے محفوظ نہیں رہے گا۔

جلاوطن ہونے والے لیڈروں کی رہائش کے باہر ایسی ہی ہلڑ بازی اور گالم گلوچ و دھکم پیل معمول بن جائے گی۔ پھر لندن میں تو پاکستان کا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے بےشمار فلیٹس، گھر، فارم ہائوسز، گالف کورٹس، بنگلے، بیش قیمت جائیدادیں اور اکائونٹس موجود ہیں، ان افراد میں ہر قسم کے پروفیشن اور ہر ادارے کے لوگ شامل ہیں اور ہاں سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی تو یہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے مطلوب مجرم بھی یہیں ہیں۔ 

بہت بڑے بڑے کھرپ پتی پاکستانیوں کے بچے بھی یہیں ہیں، چنانچہ ہمارے یہ عاقبت نااندیش لوگ کس کس کے نکاح کی تقریبات پر ہلہ بولیں اور تبرا بھیجیں گے؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ لندن میں اس قماش کے لوگ اس ملک کے قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بےخوف ہو کر کسی کی وڈیو بنا لیتے ہیں اور اسے رسوا کرنے کیلئے پھر سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں پھر ہمارا ریگولر میڈیا بھی اس قسم کے نان ایشوز پروگرام شروع کر دیتا ہے۔ 

یہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ہم جو کچھ مرضی کہتے اور کرتے پھریں۔ سوال یہ ہے کیا یہی لوگ اپنی خاندان کو ساتھ لے کر جاتی امرا یا بلاول ہائوس کے باہر جاکر اپنا یہی عمل دہرا سکتے ہیں یا ان الزام زدہ سیاسی رہنمائوں کے خاندان کے بچوں کے نکاح کی تقریب ہو رہی ہو تو یہی لوگ وہاں جاکر چور چور کے نعرے لگا سکتے ہیں؟ 

ایک اور سوال ہے کہ اگر کل کو ہم اوورسیز پاکستانی اسلام آباد میں قومی اسمبلی یا بنی گالہ کے باہر جاکر نعرے لگانے اور دھرنے دینا شروع کر دیں کہ ہم جو 24بلین ڈالر سالانہ پاکستان بھیجتے ہیں، ہمیں حساب دیا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے، وزیراعظم بتائیں کہ ہماری یہ خون پسینے کی کمائی کن کن افسروں، مشیروں و وزیروں کی جیبوں میں جا رہی ہے؟ اس قسم کی باتیں اور حرکتیں ہمیں کہاں لے جائیں گی؟ 

سیدھی بات یہ ہے کہ بدتہذیبی کے نعروں اور گالم گلوچ کلچر سے پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا دامن صاف نہیں ہے لیکن ’’پی ٹی آئی‘‘ نے اس رجحان کو مہمیز دی ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو وزیراعظم ’’کنٹینر‘‘ کے اثرات سے باہر نکلیں اورعلانیہ کہیں کہ میری جماعت اس قسم کے کلچر اور سوقیانہ جملوں کی حمایت نہیں کرتی اور اگر کوئی ایسا عمل کرتا ہے تو ’’پی ٹی آئی‘‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

اس اہم نکتے پر بھی غور کی ضرورت ہے، اوپر ذکر کئے گئے واقعات میں کون یا کس کیٹیگری کے افراد ملوث ہوتے ہیں، کیا یہ ادیب و شاعر اور دانشور ہیں ، ڈاکٹر، انجینئر یا بیوروکریٹس و ٹیکنو کریٹس ہیں یا یہ لوگ کوئی قابلِ ذکر بزنس مین یا سکہ بند سیاست دان ہیں یقیناً ایسا نہیں ہے زیادہ تر یہ فارغ البال اور نامعلوم افراد ہوتے ہیں جو فیملیز کو لیکر تفریحاً اور میڈیا کی زینت بننے کیلئے ایسا کرتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آئندہ اس قسم کے مظاہرے اور ہلڑ بازی کرنے والوں کے بڑے لیڈر کھلم کھلا سامنے آکر خود بھی اس قسم کے اجتماعات میں شامل ہوں کیونکہ بیرون ملک مقیم سب ہی پاکستانیوں کے لئے یہ حالات بےتوقیری کا باعث ہیں باقی مغربی ممالک کی حکومتیں ہمارے ملک کی سیاست سے بخوبی آگاہ ہیں۔

تازہ ترین