ماہ اگست پاکستانیوں کے لیے خاص اہمیت کاحامل ہے، کیوں کہ اسی ماہ میں اب سے 74؍ سال قبل رب کریم نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نوازا۔ تقسیم ہند اور آزادی کے پس منظر میں پاکستانی فلم میکرز نے متعدد فلمیں تخلیق کیں، جن سے متعلق تفصیلی مضامین ’’جنگ‘‘ کی گزشتہ اشاعتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ آج کے مضمون میں ہم ایسی کچھ فلموں کا ذِکر کریں گے کہ جو گزشتہ 74؍ برس کے مختلف برسوں میں ماہ اگست کے دوران منظر عام پر آئیں۔ ایسی فلموں کی مجموعی تعداد تو بہت زیادہ ہے۔ تاہم ان میں سے سبجیکٹ اور ٹریٹمنٹ کے حساب سے جو نسبتاً زیادہ معیاری اور کام یاب رہیں۔ ایسی ٹاپ 10؍ فلمیں منتخب کرکے ان پر بات کریں گے۔
ہدایت کار اسلم ڈار نے متعدد اردو فلموں کے بعد پہلی پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ بنائی، تو کراچی سرکٹ میں اس کی ریلیز کا اہتمام 18؍ اگست 1972ء کو کیا گیا۔ گوکہ ’’بشیرا‘‘ سے قبل کراچی میں ماہ اگست کی جو فلمیں نمایاں ہٹ ثابت ہوچکی تھیں، ان میں چندا، اولاد، دلاں دے سودے، عندلیپ اور بہارو پھول برساؤ شامل ہیں، لیکن ’’بشیرا‘‘ نہ صرف سبجیکٹ، موسیقی، کردار نگاری اور ڈائریکشن کے اعتبار سے اعلی معیاری فلم تھی، بلکہ باکس آفس پر بھی اس کا بزنس متذکرہ بالا تمام فلموں سے زیادہ رہا۔
اس فلم نے اس زمانے کےسپورٹنگ آرٹسٹ ’’سلطان راہی‘‘ کو پنجابی سنیما کا اسٹار بنادیا تھا۔ اسی فلم سے موسیقار کمال احمد کو اردو کے بعد پنجابی سنیما میں بھی کلیدی حیثیت ملی،یہ فلم کراچی سرکٹ میں اسلم ڈار کے کریڈٹ پر واحد گولڈن جوبلی فلم تھی۔ مجموعی طور پر یہ فلم کراچی میں 60؍ ہفتے زیر نمائش رہی۔ ’’بشیرا‘‘ کے روایتی ہیرو ہیروئن حبیب اور روزینہ تھے، لیکن کہانی کا اصل مرکز و محور سلطان راہی، عالیہ اور الیاس کشمیری تھے۔
ماہ اگست کی ایک اور ناقابل فراموش فلم ’’آس‘‘ تھی، جو 10؍ اگست 1973ء کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو علی سفیان آفاقی نے ڈائریکٹ کیا تھا، جو بنیادی طور پرفلمی صحافی تھے، لیکن ’’آس‘‘ کی خُوب صورت اور منفرد کہانی پر انہوں نے بہ طور ہدایت کار طبع آزمائی کی اور اس قدر معیاری فلم بنائی کہ اچھے اچھے کہنہ مشق ڈائریکٹر انگشت بدنداں تھے۔ ’’آس‘‘ کا معیار دیکھ کر محمد علی دی گریٹ کی ایک فرسٹیٹڈ نوجوان کے کردار میں بے مثل کردار نگاری کے مظاہر فلم ویورز کو دیکھنے کو ملے۔ شبنم، عقیل، قوی، صاعقہ کی کردار نگاری نے فلم کی شعبہ اداکاری کو جلادی۔ نثار بزمی کا دل کش معیاری موسیقی بھی ’’آس‘‘ کی اعلی خوبیوں میں سے ایک تھی۔ نگار ایوارڈز کے تناظر میں ’’آس‘‘ کو 1973ء کی سب سے بڑی اور سب سے معیاری فلم تسلیم کیا گیا۔
باکس آفس پر فلم نے شان دار بزنس کے ساتھ گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ’’آس‘‘ کی ریلیز کے صرف ایک ہفتے بعد یعنی 17؍ اگست کو ایک اور بڑی فلم ’’انمول‘‘ منظر عام پرآگئی، جسے پاکستانی سنیما کے حقیقی ’’شومین‘‘ پرویز ملک نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ’’انمول‘‘ میں کہانی کی ہیروئن ’’بانو‘‘ شبنم کو جرات اور بے باکی سے حق پر ڈَٹ جانے والی عورت کے روپ میں پیش کیا گیا، ورنہ اس سے قبل فلم کی ہیروئن مظلوم، معصوم اور بے بس تھی۔ ’’انمول‘‘ کی بلاک بسٹر کام یابی نے فلمی عورت کا روایتی انداز تبدیل کردیا۔اس فلم نے پاکستان کی تیسری ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا، جو مجموعی طور پر 117؍ ہفتے تک زیر نمائش رہی۔
1975ء میں ماہ اگست میں ایک انوکھی اور منفرد تاریخ رقم ہوئی، وہ اس طرح کہ یکم اگست کو ہدایت کار پرویزملک کی ’’پہچان‘‘ اور ہدایت کار ایس سلیمان کی ’’اناڑی‘‘ ایک ساتھ نمائش پذیر ہوئیں۔ دونوں فلموں میں مرکزی کردار پاکستانی سنیما کی ہر دلعزیز جوڑی ندیم اور شبنم نے ادا کیے تھے۔یہ فلمیں بہترین معیارکی حامل ہونے کے سبب عوام کے دلوں کو اس قدر لبھاگئیں کہ بار بار دیکھی گئیں ، سپر اسٹار ندیم کی فنی کارکردگی کا گراف بلند نظر آیا۔ ان فلموں میں ندیم نے نوکر کا کردار خوب صورتی سے ادا کیا۔ان فلموں کی ڈائمنڈ جوبلی ہوئی اور باکس آفس پر ناقابل تسخیر ریکارڈ بناگئیں۔
ان فلموں کی کام یابی کے بعد ’’ندیم بیگ‘‘ سپر اسٹار کے درجے پر فائز ہوئے۔ ان فلموں کی ریلیز کے 7؍دن بعد یعنی 8؍ اگست کو ایک اور ناقابل فراموش فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ منظر عام پر آگئی، جسے پاکستانی سنیما کے محسن شباب کیرانوی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس سے قبل ہالی وڈ میں ناول ’’لواسٹوری‘‘ پر اسی عنوان کے تحت فلم بن چکی تھی، یہ ناول ایرج سیگل کا تحریر کردہ تھا۔
شباب صاحب نے اپنے ماحول اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’لواسٹوری‘‘ کو اردو فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کے قالب میں نہایت خُوب صورت اور مہارت سے ڈھالا اور نسبتاً نو آموز فن کاروں غلام محی الدین اور بابرہ شریف کو مرکزی کرداروں میں پیش کرکے ان سے یادگار کام لیا۔ ایم اشرف کی دل کش موسیقی نے بھی ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کو نقش لازوال بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ فلم نے باکس آفس پرکام یابی سے گولڈن جوبلی کا سنگ میل عبور کیا۔ شباب کیرانوی کی یہ واحد فلم ہے، جس پر انہیں بہترین ڈائریکٹر کا نگار ایوارڈ ملا۔ 23؍ اگست 2013ءکو سکس سگما کی اولین پروڈیوس کردہ فلم ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ ریلیز ہوئی، جسے ہمایوں سعید نے پروڈیوس اور اسامہ نے ڈائریکٹ کیا۔
کرکٹ کے موضوع پر یہ پاکستان کی اولین فیچر فلم تھی، گو کہ پورا تھیم فلم ’’چک دے انڈیا‘‘ سے انسپائرڈ تھا۔ تاہم ہاکی کے گیم کو کرکٹ میں تبدیل کرکے بہترین معیاری ٹریٹمنٹ اعلی کردار نگاری اور عمدہ میوزک کے پیراہن میں سجا کر ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ کو ہر خاص عام کے لیے ایک قابل دید فلم بنادیا گیا، جس نے باکس آفس پردھواں دھار کام یابی حاصل کی۔ ہمایوں سعید اور جاوید شیخ کا ٹکرائو اس فلم کا سب سے مضبوط اور دل چسپ پہلو تھا۔
کرکٹ میچز کے مناظر بھی فلم میں بڑی مہارت اور چابکدستی سے فلمائے گئے۔ اس فلم کی زبردست کام یابی نے ریوائیول آف سنیما کی تحریک میں تیزی پیدا کی اور انڈر پروڈکشن پروجیکٹس سرعت سے مکمل کیے گئے۔ فلم کا اسکرپٹ واسع چوہدری کے زور قلم کانتیجہ تھا، جب کہ کاسٹ میں ماہ نور بلوچ، متیرا، اسماعیل تارا، ندیم بیگ، حمزہ علی عباسی وغیرہ شامل تھے۔
23؍ اگست 2018ء کی ریلیز ’’پرواز ہے جنون‘‘ اور ’’لوڈویڈنگ‘‘ نے بھی بہ یک وقت کام یابی اور معیار کے حوالے سے اپنا جداگانہ مقام بنایا۔ ’’لوڈویڈنگ‘‘ فلم میں جہیز کے دیرینہ ایشو پر نئے اور جداگانہ انداز سے انگشت نمائی کی گئی۔ نبیل قریشی کا اعلی ٹریٹمنٹ، مہوش حیات اور فہد مصطفیٰ کی بہترین کردار نگاری کے ساتھ ساتھ شانی ارشد کا دل کش میوزک ’’لوڈویڈنگ‘‘ کا امتیاز تھا ، جب کہ ہدایت کار حسیب حسن کی ’’پرواز ہے جنون‘‘ پاک فضائیہ کے حوالے سے بنائی گئی نہایت معیاری، دل چسپ اور قابل دید فلم تھی۔ حمزہ علی عباسی، ہانیہ مرزا، شمعون عباسی، آصف رضا میر، احد رضامیر، لیلیٰ زبیری، مرینہ خان اور کبری خان، فلم کے قابل ذکر ستارے تھے۔ مذکورہ بالا دنوں فلموں میں گو کہ بزنس کے اعتبار سے ’’پرواز ہے جنون‘‘ آگے رہی، لیکن معیار کے اعتبار سے یہ ایک بڑی فلم تھی۔
دسویں اور آخری فلم وہ ہے، ہدایت کار احتشام الدین کی ’’سپراسٹار‘‘ جو 12؍ اگست 2019ء کو عیدالاضحی کےموقع پر نمائش پذیر ہوئی۔ تھیٹر اور فلم کے ماحول پر اس فلم کا خُوب صورت اور جان دار اسکرپٹ علی مصطفی اور اذان سمیع نے تحریر کیا تھا۔ فلم کے موسیقار اذان سمیع تھے۔ فن کاروں میں ماہرہ خان، بلال اشرف اور ندیم بیگ نے نہایت شان دار پرفارمنس دی تھی۔ احتشام الدین کی ڈائریکشن کا معیار بھی بلند اور متاثرکن تھا۔ فلم نے باکس آفس پر عمدہ بزنس حاصل کیا۔