تحریروتحقیق: وثیق الرحمان
14ستمبر1965 کا سورج ابھی پوری طرح طلوع بھی نہیں ہو پایا تھا کہ بھارت کی چار ڈویژن فوج فسٹ آرمڈ ڈویژن 14 انفنٹری 26 انفنٹری اور 6ماؤنٹین چونڈہ کی مغربی سمت سے ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے فتح چونڈہ کا ناپاک منصوبہ دل میں لئے حملہ آور ہوئی۔
تمام دفاعی تجزیہ کار اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ ستمبر 1965کو دریائے چناب اور دریائے راوی کے درمیان لڑی جانے جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی تمام جنگوں میں سے سب سے بڑی اور فیصلہ کن جنگ تھی۔اس محاذ پر افواج پاکستان کی تمام تر توجہ سیالکوٹ کے دفاع پر مرکوز تھی کیونکہ لاہور پر ہوئے چھ ستمبر کو ہوئے حملہ کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مکار دشمن گنجان آبادی والے شہری علاقوں پر حملہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس محاذ پر بھارتی فوجی قیادت نے کچھ اور ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اس محاذ پر بھارت کا ہدف سیالکوٹ نہیں چونڈہ تھا جو دفاعی لحاظ سے بھارتی فو ج کی گوجرانوالہ کی طرح پیش قدمی کرنے کے لیے جنگی ہیڈ کواٹر بنانے کے لیے بہت خاص اہمیت کا حامل تھا ۔ دوسری وجہ انتخاب یہ تھی چونڈہ کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں کوئی قدرتی رکاوٹ (ندی جنگل پہاڑ دریا) موجود نہیں تھی جو ٹینکوں کی راہ میں روکاوٹ بنتی۔اس لیے نالہ ایک اور نالہ ڈیک کے درمیانی علاقہ کا انتخاب بھارتی منصوبہ سازوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا
دھول دھویں اور گولوں کی گن گرج کے درمیان بھارتی کالا ہاتھی فورس (فسٹ آرمڈ ڈویژن) کے بدمست ٹینک چیختے چنگاڑتے آگے بڑھ رہے تھے۔ پاک فوج کا 15 ڈویژن دفاعی پوزیشن پر گھات لگائے انتظار کر رہا تھا۔ جونہی دشمن ہدف پر واضح ہوا، اللہ اکبر کی صداؤں کے ساتھ پاک فوج کے جوانوں نے ان بدمست ہاتھیوں کا شکار شروع کر دیا۔ فسٹ آٹلری کور کے کمانڈر برگیڈیئر امجد چوہدری نے جوابی حملہ کے لئے قیادت سنبھال لی اور ایسے درست طریقہ سے ہدف پر گولہ باری کروائی کہ بھارتی فسٹ آرمڈ ڈویژن پر موت سایہ فگن ہوگئی۔ 25 کیلوری کے پیٹن ٹینک بھی قہر بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ دشمن کے ٹینک یکے بعد دیگرے تباہ ہونے لگے۔ حملہ آور بھارتی فوج پوری طرح پاک فوج کے بچھائے ہوئے ڈیتھ کیج میں پھنس چکی تھی۔
یہ داستان شجاعت 25 کیلوری کے سپاہی محمد ظفر، چونڈہ محاذ پرکمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے معمول کے دورے پر آئی ٹیم کے میجرز کو سنا رہے تھے۔ وہ سپاہی محمد ظفر جو نہ صرف اس جنگ کے چشم دید گوا ہ تھے بلکہ انہوں نے ٹینکوں کی اس تاریخی جنگ میں ہونے والی دست بدست لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
لیفٹیننٹ کرنل فضلِ رازق کی قیادت میں میجرز پوری دلچسپی اور توجہ سے 90 سالہ سپاہی محمد ظفر کی داستان سن رہے تھے۔ 19 ستمبر کو چونڈہ ریلوے لائن کے آس پاس تین کلو میٹر کے علاقہ میں حق و باطل کا معرکہ جاری تھا۔ جنگ اس حد تک اپنے نقطہ عروج کو چھو چکی تھی کہ دونوں طرف سے افواج ایک دوسرے سے دست بدست لڑائی کر رہے تھے۔ پاک فوج کی 3FF، 13F، 2Punjabاور 25کیلوری کے جوان بھارتی سورماؤں پر سنگینوں سے حملہ آور ہوئے۔ آگے بڑھنے کی جستجو کرتے بھارتی ٹینکوں کے نیچے پاک فوج کے جوان اپنے سینوں پر بم باندھ کر ان کے پرخچے اڑا رہے تھے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صداؤں میں پاک فوج کے جوان اپنی جانیں اللہ کے سپرد کر رہے تھے۔ بھارتی سورما دہشت زدہ پرندوں کی طرح نرغے میں تھے۔
اللہ کے پراسرار بندے بھارتی فوج کی عددی برتری اور اسلحہ کے گھمنڈ کو خاک میں ملا رہے تھے۔ سپاہی محمد ظفر چشم تصور سے 54 سال پہلے اس دن کو دیکھ رہے تھے۔ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے جوان محبت اور رشک بھری نظروں سے سپاہی محمد ظفر کو دیکھ رہے تھے۔
سپاہی محمد ظفر نے بتایا کہ بھارتی رجمنٹ کے ایک مرہٹے کو جہنم واصل کرنے بعد دوسرے مرہٹے پر سنگین سے حملہ آور ہوئے پہلے ہی حملہ میں وہ زمین پر گر پڑا۔ پیٹ پر سنگین کا ایک ہی وار کاری ثابت ہوا۔ اچانک ایک گولہ پھٹنے سے سپاہی ظفر کے سر پر شدید چوٹ آئی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ دو ہفتہ کومہ میں رہنے کے بعد جب وہ ہوش میں آئے تو انہیں بتایا گیا کہ سر پر چوٹ کے علاوہ ان کا ایک بازو اور ٹانگ کی ہڈیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں اور آپریشن کرنا پڑے گا۔کھاریاں ملٹری ہسپتال میں ان کے بازو اور ٹانگ کو مصنوعی ہڈی لگا کر چھ ماہ بعد رخصت کر دیا گیا۔
انہوں نے دوبارہ 25 کیلوری جائن کر لی۔ سپاہی محمد ظفر نے بعد ازاں 1971ء کی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ سپاہی محمد ظفر آج بھی اپنے گاؤں دھول باجوہ جو چونڈہ سے 5کلو میڑکے فاصلے پر واقع ہے اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم ایک غازی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سپاہی محمد ظفر نے بتایا کہ باپ دادا اور بھائی بہنوں پوتوں سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد پاک فوج کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔جب سپاہی محمد ظفر نے پاک فوج کے میجرز کو یہ بتایا کہ وہ آج بھی ایک گائے اور ایک بھینس کو خود کھیتوں سے چارہ لا کر ڈالتے ہیں تو شرکاء محفل نے تالیاں بجا کر محمد ظفر کی خراج عقیدت پیش کیا۔
محمد ظفر جیسے نا جانے کتنے ہیرو ہمارے غازی پاکستان کے مختلف مقامات پر گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاک فوج کی اس اعزازی تقریب کے اختتام کے بعد سپاہی ظفر کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں اپنے سہانے دنوں کی یادیں لیے رخصت ہوئے۔
افواج پاکستان کی آرمڈ فورس 41 ہارس کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کی میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۔ 41 ہارس کے سی او فیصل نے سٹاف کالج کی پوری ٹیم کو سرزمین چونڈہ پر خوش آمدید کہا اور چونڈہ محاذ کی اہمیت کو پیشہ ورانہ بریفنگ کے ساتھ اجاگر کرنا شروع کیا۔ 8 ستمبر کو صبح چھ بجے بھارتی 4 ڈویژن کی فوج نے تین مقامات باجرہ گڑھی، چاروہ اور نکھنال سے پاکستانی سرحد عبور کی۔ بھارتی فوج کو کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاک رینجرز ایک گھنٹہ داد شجاعت دینے کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ ابھی بھارتی فوج دس کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کر پائی تھی کہ پاکستان ائیر فورس کے طیاروں نے بھرپور حملہ کیا۔ حملے سے بھارتی فوج کو کوئی خاص نقصان تونہ پہنچا البتہ 4 ڈویژن کا ایڈوانس ایک گھنٹے تک رک گیا۔
چونڈہ کے ابتدائی محاذوں کا ذکر کرتے ہوئے Strategic Gap کو بھی تفصیلاً بیان کیا گیا کہ پاکستانی سرحد پر پاکستانی فوج کی طرف سے ابتداء میں مزاحمت اتنی کم کیوں تھی۔ چھ ستمبر کو 24 بریگیڈ کی 25 کیلوری اور 2 پنجاب پہلے ہی چونڈہ کے پاس کسی متوقع حملہ سے نپٹنے کے لئے پوزیشن لے چکی تھیں۔ لیکن چھ اور سات ستمبر کی درمیانی رات کو جسٹر کے پل پر بھارتی فوج نے حملہ کر دیا۔
اس وقت پورے محاذ پر 25 کیلوری واحد ایسی بٹالین تھی جسے متحرک کیا جا سکتا تھا۔ جیسے ہائی کمانڈ کی طرف سے جسٹر پہنچنے کا حکم ملا، 25 کیلوری اور 2 پنجاب فوراً ہی جسٹر کی طرف روانہ ہو گئیں اور چونڈہ کا محاذ بالکل خالی ہو گیا۔ 8 ستمبر کو جب صبح 6:30 پر بھارتی 4 ڈویژن فوج پاکستانی سرزمین پر حملہ آور ہوئی تو 25 کیلوری جو کہ ابھی نارووال کے پاس تھی اور جسٹر پہنچنے ہی والی تھی اس کو حکم ملا کہ فوراً واپس چونڈہ پہنچ جائے۔ '' دشمن پاکستان کی سرزمین پر داخل ہو چکا ہے اس تباہ کر دیا جائے'' یہ تھا وہ مختصر سا آرڈر جو 25 کیلوری کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثاراحمد خاں کو ملا۔ ساری رات سفر کے باوجود 25 کیلوری اور 2 پنجاب کے جوان فرض کی ادائیگی کے لئے فوراً واپس چل پڑے۔
پسرورپہنچ کر ٹینکوں میں ایندھن بھرنے کے بعد یہ فوجی کارواں چونڈہ کی طرف چل پڑا، وہ چونڈہ جہاں قدرت پاک فوج کے ان جوانوں سے وہ کارنامہ سرانجام دلوانے جا رہی تھی جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلیں اپنے نوجوانوں کا لہو گرماتی رہیں گی۔
25 کیلوری کے تین سکوارڈن یعنی صرف 44 ٹینک دشمن کی تلاش میں چونڈہ کی طرف بڑھنے لگے، دشمن کی تعداد کا نہ ہی اندازہ تھا اور نہ ہی مقام کا پتہ۔بھارتی فسٹ آرمڈ ڈویژن اس وقت سرحد سے 10 کلومیٹر دور چوبارہ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
25 کیلوری کے سکوارڈن A اور سکوارڈن B نے اتنی تیز رفتاری سے سفر طے کیا کہ ٹینکوں کی جنگوں میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ 8ستمبر 11:30 منٹ پر 25 کیلوری کے سکوارڈن A کا سامنا بھارتی 4 ہارس کے چھ سینچورین ٹینکوں سے ہوگیا۔ دونوں اطراف سے ٹینک اچانک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے تقریباً 500 میٹر کا فاصلہ تھا۔ سکوارڈن A کے لیڈر میجر احمد نے اپنے ٹینک کے گنر کو فائر کا حکم دیا۔ لیکن بدقسمتی سے فائر پن ٹوٹ گئی۔
25 کیلوری کا یہ ٹینک سیدھا ورکشاپ سے آیا تھا اور اس کی تکنیکی خرابی ابھی پوری طرح ٹھیک نہ ہو پائی تھی کہ اس ٹینک کو محاذ جنگ پر لانا پڑا۔ میجر احمد کے پاس بالکل بھی وقت نہیں تھا، دشمن سامنے تھا۔ میجراحمد اپنے ٹینک سے کود کر باہر نکلے بھاگ کر اپنے سکوارڈن کے دوسرے ٹینک پر سوار ہوئے، گنر کو پیچھے کیا اور خود فائر کیا۔ پہلا گولہ ٹھیک نشانے پر لگا، بھارتی سینچورین ٹینک تباہ ہوگیا۔ میجر احمد نے دوسرا فائر کیا، دوسرا ٹینک بھی ناکارہ ہو گیا۔ بھارتی ٹینک پیچھے ہٹے اور میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ میجر احمد خود بھی بری طرح جھلس گئے۔
کہنے کو تو یہ معمولی سی جھڑپ تھی لیکن اس واقعہ نے آنے والی جنگ پر ایسے اثرات چھوڑے کہ بھارتی شکست کے اسباب میں اس کو ایک بڑا سبب سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس حملہ کی وجہ سے بھارتی 4 ڈویژن فوج کا ایڈوانس نہ صرف رک گیا بلکہ بھارتی کمانڈروں نے اپنی ساری ڈویژن کو واپس سرحد کی طرف پسپا کر لیا اور سبز پیر کے پاس اگلے دو دن تک نئی منصوبہ بندی میں گزاردیئے جس سے پاکستانی فوج نے پورا فائدہ اٹھایا اور پاکستانی فوج کے 15 ڈویژن نے اسی اثناء میں چونڈہ کے محاذ پر اپنی دفاعی پوزیشن بہت مضبوط کر لی۔
محاذ چونڈہ کی جنگ نے داد شجاعت کی بہت سی داستانوں کو جنم دیا اسی محاذ پر لانس دفعدار عطا محمد (تمغہ جرات) نے یک بعد دیگرے فائر کر کے دشمن کے چار سنچورین ٹینک اس طرح مار گرائے جیسے تیتر کا شکار کیا جاتا ہے۔ان کا ٹینک گھات لگا کر چھپا ہوا تھا انہوں نے دشمن کے پانچ ٹینک کماد کے کھیت سے نمودار ہوتے دیکھے عطا محمد نے ٹینکوں کو قریب آنے دیا پھر اس طرح درست نشانہ پر فائر کیے کہ چار ٹینک تباہ کر دئیے پانچواں ٹینک بمشکل بچ کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ بہادری اور مہارت کے اس بے مثال کار نامے پر دفعدار عطا محمد کو فیلڈ کمانڈر برگیڈر عبد العلی ملک نے میدان جنگ میں ہی فوتی ترقی دے دفعدار بنا دیا۔۔محاذ جنگ پر فوری ترقی کا یہ منفرد واقعہ ہے۔جنگ کے بعد انہیں تمغہ جرات کا اعزاز بھی دیا گیا۔
چونڈہ محاذ کے اکثر مقامات (جہاں یہ حق و باطل کا معرکہ ہوا) آج بھی جوں کے توں موجود ہیں اور بھارتی عبرتناک شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
افواج پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد