روشنیوں کے شہر کراچی میں پولیس کی آشیر باد سے منشیات کے اڈوں اور منشیات فروشوں کونہ صرف فروغ ملا، بلکہ ان کی سر پرستی کرنے والی پولیس کی کالی بھیڑوں کی چاندی ہو گئی، جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ نئی نسل کی رگوں میں زہر گھولنے والوں نے پولیس کی ملی بھگت سے پورے شہر کو اپنی لپیٹ لے رکھا ہے۔ منشیات کی لعنت جہاں نوجوان نسل اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہی ہے، وہیں مستقبل کے معمار طلبہ و طالبات کو اس زہر قاتل کا عادی بناکر ان کے روشن مستقبل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ پولیس کے بدعنوان ایس ایچ اوز کی سطح کے افسران راتوں رات لکھ پتی کیسے بن گئے۔ اس جانب اعلی پولیس افسران نے ہمیشہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر کررکھی، جس کے باعث منشیات فروشوں کانیٹ ورک مزید فعال ہوتا گیا۔ تاخیر سے سہی لیکن موجودہ کراچی چیف عمران یعقوب منہاس کے حکم پر منشیات کی فروشوں کی سرپرستی میں ملوث پولیس افسران و اہل کاروں کے خلاف مہم کا آغاز بلاشبہ لائق تحسین قدم ہے، جسے عوامی حلقوں میں سراہا جارہا ہے ۔
اگر یہ مہم بلا تعطل جاری رہی تو نہ صرف منشیات فروشوں، بلکہ ان کے سر پرستوں کا بھی قلع قمع ہو جائے گا ۔ ایڈ یشنل آئی جی کراچی نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ منشیات کے خاتمے کی مہم میں کسی قسم کی کوتاہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ رواں سال غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کراچی پولیس کے 180 سے زائد افسران و اہل کاروں کی خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جا چکی ہیں، جن میں 62 کو ملازمت سے برخاست اور 15 کو جبری ریٹائر کیا گیا ہے۔ جب کہ مزید کارروائیاں انکوائری افسران کی سفارشات کے مطابق عمل میں لائی جائیں گی۔
اسپیشل برانچ کی جانب سے مختلف اوقات میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پولیس اہل کاروں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔ کراچی پولیس چیف کے حکم پر رپورٹ میں شامل پولیس افسران و اہل کاروں کے متعلق الزامات کی محکمہ جاتی انکوائری کرائی جاتی ہے، الزامات ثابت ہونے پر پولیس اہل کاروں کی خلاف ماضی میں بھی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ رواں ہفتے اسپیشل برانچ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں شامل پولیس اہل کاروں کے خلاف انکوائری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
الزامات ثابت ہونے پر غیر قانونی سرگرمیوں اورمنشیات فروشی میں ملوث اہل کاروں کے خلاف انتظامی کارروائی کے علاوہ مقدمات کا اندراج کیا جائےگا۔ایڈیشنل آئی جی نے واضح کیا ہے کہ کراچی پولیس فورس میں شامل ہر افسر اور اہل کار عوام کے تحفظ کا امین ہے۔ کراچی پولیس منشیات سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کالی بھیڑوں کے لیے صفر رواداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ غیر قانو نی سرگر میوں،شارٹ ٹرم کڈنیپنگ اور منشیات فروشی جیسے گھناونے دھندے میں ملوث پولیس افسران اور اہل کاروں کی صرف معطلی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ ایسے بدعنوانوں سے محکمہ پولیس کوپاک کرنا اب نا گزیر ہو چکا ہے۔ شہری حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ منشیات کے خلاف جاری مہم کے باوجود کراچی کے بیشتر علاقوں کلفٹن ڈیفنس،گزری ، درخشاں اور ساحل،حاجی کیمپ سلطان آباد ، گلشن سکندرآباد ،ہندو پاڑہ،شیریں جناح کالونی ،کورنگی ، نیوکراچی، لیا قت آباد، شریف آباد سمیت دیگر تھانوں کےایس ایچ اوز ،ہیڈ محرر اور ڈیوٹی افسر جو مختلف حربوں سےہفتہ وار بھتہ وصولی میں مصروف ہیں، جس کے واضح ثبوت پولیس کی سر پرستی میں مبینہ ہزاروں روپے کے عیوض لیاقت اآباد میں ہر اتوار کو پرندہ اور کباڑ بازاربازار ۔
نیوکراچی میں اتوار کو لگایا جانے والا کار بازار اور کباڑ بازار لگایا جاتا ہے، ان بازاروں کی وجہ مذکورہ دونوں علاقوں بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ جس کے باعث پید ل چلنا محال ہو تا ہے ، جب کہ مریضوں کولے جانے والی ایمبولینسیں بھی گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسی رہتی ہیں، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے متعدد بار اس جانب توجہ دلانے کے باوجود ان کےخلاف کوئی کارروائی نظر نہیں آئی۔
شہریوں کی جانب سے پولیس اہل کاروں کےمنفی رویوں اور ایف آردرج نہ کرنے کی بڑھتی ہوئی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شہریوں کی سہولت کے لیے سماجی رابطے کی ایپلیکیشن پر ہیلپ لائن کمپلینٹ سروسز شروع کردی ہے، جس کے ذریعے ، شہری تفصیل کے ساتھ اپنی شکایات درج کروا سکیں گے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے واٹس ایپ نمبر 03435142770 بھی جاری کیا گیا ہے۔ شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ پولیس سے متعلق شکایات مذکورہ نمبر پر رجسٹرڈ کراسکتے ہیں، جس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کا مزید کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مقدمے کا اندراج نہ کیا جارہا ہو، درج مقدمے کی تفتیش دُرست نہ ہورہی ہو، ڈسٹرکٹ یا ٹریفک پولیس کی جانب سے کوئی زیادتی کی جارہی ہو، کسی شخص کو پولیس نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہو، کسی کو جھوٹے مقدمے یا الزام میں ملوث کیا جارہا ہو، کوئی پولیس افسر آپ کے جائز کام میں رکاوٹ بن رہا ہو یا رشوت کا مطالبہ کررہا ہو اس کی فوری شکایات مذکورہ ہیلپ لائن پر کی جائے۔
دوسری جانب شہر میں رونما ہونے والے جان لیوا حادثات کا بڑا سبب کم عمر ڈرائیورز ہیں ۔ گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ نے کم عمر ڈرائیورز کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی ان کے والدین اورگاڑی کے مالکان/ ڈرائیورزکے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے، جو انہیں گاڑی، موٹر سائیکل اور رکشہ چلانے کی اجازت دیتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ٹریفک پولیس نے کم عمر ڈرائیوروں،گاڑی کے مالکان اور والدین کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ اس ضمن میں ٹریفک پولیس نے ستمبر کے آغاز ہی سے شہربھر میں اس خصوصی مہم کے دوران جرمانے اور چالان کرنا شروع کردئے ہیں۔
اب تک کم عمر ڈرائیورز پر مجموعی طورپر 1475 چالان او 737500 جرمانے عائد کیے گئے، جب کہ گاڑی چلانے کی اجازت دینے پر والدین / گاڑی کے مالکان کے 553 چالان اور 553000 کے جرمانے کیے گئے اور 1417گاڑیاں بھی ضبط کی گئی ہیں۔ اس حوالے سےڈی آئی جی ٹریفک کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے احکامات کے تحت کم عمر ڈرائیور وں ان کے والدین /گاڑی کے مالکان/ڈرائیورزکے خلاف سخت کارروائی کا آغاز ہوچکاہے،خلا ف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے اور چالان ٹکٹ جاری کیے جائیں گے، جب کہ گاڑی/موٹر سائیکل/رکشہ بھی تحویل میں لیا جائے گا۔
گاڑی اس صورت میں واپس دی جائے گی، جب جرمانہ ادا کرنے کے ساتھ ، مالک /ڈرائیور لائسنس ، گاڑی کی اوریجنل رجسٹریشن بک/کارڈاور دیگر کاغذات دکھائے گا، جب کہ والدین/گاڑی کا مالک/ڈرائیور حلف نامہ بھی لکھ کر دے گا کہ آئندہ وہ بچے کو گاڑی/موٹر سائیکل/رکشہ چلانے کے لیے نہیں دیں گے۔ اس کےباوجود بھی کم عمر ڈرائیورز نے پھر بھی خلاف ورزی کی توکارروائی کے ساتھ گاڑی بھی غیر معینہ مدت کے لیے تحویل میں لے لی جائے گی ۔
دوسری جانب پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر نےعوام خصوصا پولیس اہل کاروں کو خوف میں مبتلاکر دیا ہے۔ واقعا ت کے مطابق اورنگی ٹاؤن گلشن بہار سیکٹر 16 میں نامعلوم دہشت گرد نے ہوٹل میں کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے منگھو پیر انویسٹی گیشن پولیس افسر کو اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ مقتول کا آبائی تعلق مانسہرہ تھا۔ شہید اہلکار کھا نے کے لیے ہوٹل میں بیٹھے تھے کہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص جس کے چہرے پر ہلکی داڑھی اور بڑے بال تھے نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر اکرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جب کہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے مقدمہ کے مدعی سید ظفر حسین شاہ نے بمشکل بھاگ کر جان بچائی۔
مدعی کے مطابق واقعہ کے بعد ملزم اپنے ساتھی کےساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔ پولیس کو جائے وقوع سے نائن ایم ایم پستول کے 8 خول ملے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقتول اہل کار پاکستان بازار تھانے میں بھی تعینات رہا ہے ، وہ کسی ریڈ پر جانے سےقبل کھانا کھانے کے لیے ہوٹل آئے تھے کہ سفاک قاتل نے انھیں نشانہ بنایا، ملزم کا انداز بہت جارحانہ تھا اور اسکے دونوں ہاتھوں میں پستول سے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم کا ٹارگٹ شہید اہلکار ہی تھا،ملزمان کو معلوم تھا کہ وہ اس وقت ہوٹل میں موجود ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہوٹل میں بیٹھنے کی اطلاع ہوٹل سے ہی دی گئی ہو ۔ مقتول اہل کار کراچی آپریشن میں بھی فعال رہا تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہےقتل ذاتی عناد بھی ہو سکتا ہے، طریقہ واردات اور جنونیت سے حملہ آور کی پولیس افسر سے نفرت واضح نظر آتی ہے، مقتول پولیس افسر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کوئی کیس نہیں چلایا اور نہ ہی دہشت گردوں کے خلاف کوئی کیس انوسٹی گیٹ کیا، تفتیشی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 6 ماہ کے دوران مقتول پولیس افسر کو 40 کے قریب مقدمات کی تفتیش سونپی گئی تھی ،مقتول پولیس افسر کو تفتیش کے لیے دیے جانے والے زیادہ تر مقدمات لینڈ گریبنگ کے تھے۔
یہاں بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان رینجرز (سندھ) اور پو لیس نے انٹیلی جنس معلومات اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے منگھو پیر اجتماع گاہ کے قریب مشترکہ کارروائی کے دوران اے ایس آئی اکرم خان کے قتل میں ملوث ٹارگٹ کلر محمد آصف عرف بھایا کو گرفتار کر لیا۔ دورانِ تفتیش ملزم نے اے ایس آئی اکرم خان کی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ وہ اور اس کا ساتھی محمد شاہین عرف بہاری متعدد بار جیل جا چکے ہیں اور ان کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں متعدد مقدمات بھی درج ہیں۔ ملزم کے ساتھی شاہین عرف بہاری کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔
جب قانون کے محافظ ہی قانون شکنی کے مرتکب ہو کربلا خوف و خطرشارٹ ٹرم اغواء اور مبینہ مقابلوںمیں ملوث جائیں تو کس سےگلہ کیاجائے۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شارٹ ٹرم اغواء کی واردات میں ٹیپو سلطان پولیس نے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ(ایس آئی یو) پولیس کے دواہل کاروں ملک ارباز اور ذیشان سمیت پانچ اغوا کاروں کو گرفتار کر کے مغوی تاجر کو بازیاب کرالیا ۔ ایس ایس پی ایسٹ قمر جسکانی کے مطابق اغوا کاروں نے تاجر کی رہائی کے عوض 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔
مغوی تاجر کے مطابق اغوا کاروں نے انہیں ایف آئی اے کی ٹیم بن کر اغوا کیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ایس ایس پی ایس آئی یو کا کہنا تھا کہ کانسٹیبل ملک اربازایس آئی یو کراچی میں تعینات ہے، وہ اپنی شادی کے لیے 10 روز کے لیے رخصت پر تھا ، رخصت ختم ہونے کے باوجود وہ مسلسل ڈیوٹی سے غیر حاضر تھا، جس پر کانسٹیبل ارباز کو برطرفی کا شو کاز نوٹس بھی دیا گیا تھا اور تنخواہ بھی روک دی گئی تھی۔انھوں نے اغوا کے واقعے پر وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ کانسٹیبل ملک ارباز کا اغوا کا مجرمانہ فعل اس کا ذاتی ہے، اس غیر قانونی فعل سے ایس آئی یو /سی آئی اے کا کوئی تعلق نہیں۔