کراچی (ٹی وی رپورٹ)طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جیوکے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیس سال پہلے بھی امریکا سے کہا تھاکہ نائن الیون میں کوئی افغان شامل نہیں ہے، اس وقت طالبان حکومت نے نائن الیون کے حملوں کی مذمت بھی کی تھی۔
ہم نے ان حملوں کے اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کیلئے تعاون کی پیشکش کی تھی، ہم چاہتے تھے کہ یہ معاملہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، امریکا نے ہمار ی با ت نہیں مانی اور افغانستان پر حملہ کر کے قبضہ کرلیا۔
آج اس معاملے کا نتیجہ وہی نکلا ہے جو ہم بیس سال پہلے امریکا سے کہہ رہے تھے، اللہ تعالیٰ کی مدد اور عوام کی سپورٹ سے افغانستان دوبارہ آزاد ہوگیا ہے، ہم آج بھی کہتے ہیں کہ کوئی بھی معاملہ بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ القاعدہ نے نائن الیون حملوں کے حوالے سے ملا محمد عمر کو اعتماد میں نہیں لیا تھا، القاعدہ نے نائن الیون کے حملوں کا اعتراف کرلیا ہے لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ ایسا کوئی منصوبہ بنایا جارہا ہے، ایسے حملے نہ امارت اسلامی کی پالیسی تھی نہ آج ہیں۔
کسی بھی فردیا گروہ کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، افغانستان کی سرزمین پر کوئی غیرملکی نہیں چاہتے جو ہماری سرزمین کو دوسرے ملکوں کیخلاف استعمال کرسکے، اس حوالے سے قانون سازی کے علاوہ ہماری انٹیلی جنس بھی اس پر نظر رکھے گی۔
سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ کے فعال ہونے کی خبریں بالکل غلط ہیں، دوحہ معاہدہ میں ہم نے وعدہ کیا ہے کہ افغانستان میں کوئی فنڈریزنگ سینٹر، ٹریننگ سینٹر او رریکروٹنگ سینٹر نہیں چھوڑیں گے، اگر افغانستان میں کہیں فنڈ ریزنگ، ٹریننگ اورریکروٹنگ سینٹرز ہیں تو عالمی برادری ہمیں آگاہ کرے۔
میزبان سلیم صافی نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج امریکا اور اتحادی ممالک میں نائن الیون کی بیسویں برسی منائی جارہی ہے، نائن الیون کے واقعات نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا، نائن الیون کی ہی آڑ لے کر امریکا نے بیس سال پہلے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
آج بیس سال بعد امریکی افغانستان سے ناکامی اور سبکی کا بوجھ کاندھوں پر لے کر واپس جاچکے ہیں جبکہ وہ طالبان جن کی حکومت کو اس وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ختم کیا تھا دوبارہ افغانستان کے حکمران بن گئے ہیں،یاد رہے کہ افغانستان کا قضیہ اسامہ بن لادن کے موضوع پر شرو ع ہوا تھا۔
جب امریکیوں نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکیوں کے بقول نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن اور ا ن کے ساتھیوں کو اس کے حوالے کردے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ جب بھی القاعدہ اور طالبان کا ذکر آتا ہے تو سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا نام ضرور ذہن میں آتا ہے جو دو دن پہلے ہم سے بچھڑ گئے۔
رحیم اللہ یوسف زئی طالبان ہی نہیں القاعدہ ، پاکستانی سیاست کے حوالے سے بھی اتھارٹی سمجھے جاتے تھے، رحیم اللہ یوسف زئی صحافت کی دنیا میں محنت، جفاکشی، ایمانداری اور خطرہ مول لینے کی مثال تھے، رحیم اللہ یوسف زئی نے سب سے پہلے ملا عمر کے انٹرویو کیے اور اسامہ بن لادن کے انٹرویوز کیے۔
سلیم صافی نے پروگرام میں اکتیس جولائی 2009ء کے پروگرام کی جھلکیاں بھی دکھائیں جس میں جائزہ لیا گیا تھا کہ القاعدہ کیسے وجود میں آئی اور القاعدہ کی طاقت اصل میں کیا تھی۔
سلیم صافی نے کہا کہ نائن الیون کے واقعات سے متعلق بہت سی سازشی تھیوریز بھی ہیں، کوئی کہتا ہے یہ یہودیوں کی کارستانی تھی، کوئی کہتا ہے یہ امریکی سی آئی اے نے خود پلان کیا تھا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے ہی کیے تھے، ہم نے اس حوالے سے پانچ اگست 2009ء کو ایک تحقیقی پروگرام نشر کیا تھا۔
اس پروگرام میں ہماری تحقیق کے مطابق نائن الیون کی کارروائی واقعی القاعدہ نے ہی کی تھی۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر بش القاعدہ اور طالبان کو صفحہ ہستی سے ہٹانے کا عزم لے کر اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔
اس دوران القاعدہ کے خالد شیخ محمد اور رمزی بن شبیہ جیسے کئی رہنما گرفتار بھی کیے گئے جبکہ درجنوں رہنما امریکی ڈرون حملوں میں مارے بھی گئے لیکن اسامہ بن لادن کو امریکی دس سال تک تلاش نہیں کرسکے، بالآخر 2مئی 2011ء کو امریکی اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے، امریکا نے رات کی تاریکی میں اسپیشل فورسز بھیج کر اسامہ بن لادن کو قتل کیا۔
اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے بعد امریکیوں کو افغانستان سے نکل جانا چاہئے تھا لیکن اگلے دس سال تک امریکیوں کی طالبان کیخلاف جنگ جاری رہی، اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت ڈاکٹر ایمن الظواہری نے سنبھال لی ، یہ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ایک بڑی قوت کے طور پر موجود ہے۔