کراچی(تجزیہ: مظہر عباس)اگرچہ حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف کنٹونمنٹ بورڈ زکے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن پنجاب کے نتائج نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو حیران کردیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ حالیہ نتائج کے پس منظر میں بلدیاتی انتخابات کیلئے جائیں گے؟ کچھ پارٹی رہنماؤں کا مشورہ ہے کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کراناخطرناک ہوگا کیونکہ اگلے عام انتخابات میں زیادہ وقت باقی نہیں ،بیشک پی ٹی آئی وہ واحد جماعت بن کر ابھری ہے جس نے چاروں صوبوں سے نشستیں حاصل کیں لیکن مجموعی انتخابی منظر نامے میں پی ٹی آئی مخالف جماعتوں نے انتخابات میں برتری حاصل کی۔
کنٹونمنٹ بورڈزکے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے کراچی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ،پاکستان مسلم لیگ (نواز)کے قائد و سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی، سزا اورملک سے باہر ہونے، مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کیخلاف مقدمات کی بھر مار ہونے کے باوجود بھی پچھلے ایک سال میں پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات اور اب پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں اکثریت کھو دی ۔
صوبہ پنجاب میں شکست کے پیچھے دو عوامل ذمہ دار ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ طویل عرصے سے تحریک انصاف کی غیر منظم اندرونی سیاست اور دوسرا وزیر اعظم عمران خان کا عثمان بزدار کو بطوروزیراعلیٰ لانے کا فیصلہ۔ تیسرا عنصر جہانگیر ترین کا بھی ہو سکتا ہے ۔
وزیر اعظم کی مکمل حمایت کے باوجود وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نہ تو کوئی معنی خیز کام کر سکے اور نہ ہی لوگوں کے اس تاثر کو بدلنے میں کامیاب ہو سکے کہ انہوں نے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف سے بہتر کام کیا ہے۔
اگر چہ شکست کے پیچھے بزدار ایک اہم وجہ ہیں لیکن پارٹی چیئرمین عمران خان کو بھی پنجاب میں مسلسل شکست کی کچھ ذمہ داری لینی چاہیے۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم عثمان بزدار کے بارے میں بڑا اور اہم فیصلہ لیں گے یا اگلے عام انتخابات تک انہیں بحثیت وزیراعلی برقرار رکھیں گے،چاہےانہیں پے در پے شکستوں کا سامان کرنا پڑے۔
وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کی کامیابی کیلئے نہ صرف انتظامیہ ، پولیس اور بیوروکریسی میں متعدد تبدیلیاں کیں بلکہ انکے ترجمانوں فیاض الحسن چوہان سے لے کر فیاض الحسن چوہان تک 3مرتبہ،اس کے درمیان فردوس عاشق اعوان اور اس سے پہلے صمصام بخاری کو بھی لے یر آئے لیکن وہ سب بزدار کی ساکھ بہتر بنانے میں ناکام رہے۔
مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا تعین حکومت کا اگلے سال کے اوائل میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر ہے ،بہت سے سیاسی پنڈتوں کے مطابق اگر بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں تویہ 2023 میں ہونے والے عام الیکشن کیلئے فیصلہ کن ہونگے، پنجاب میں چند پی ٹی آئی لیڈرز کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کروانے میں اب دیر ہو چکی ہےکیونکہ وہ عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات میں شکست کےمتحمل نہیں ہوسکتے، خاص طور پر فیصلہ کن صوبہ پنجاب میں۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق اگر پارٹی 2018 کے عام انتخابات کے فورا بعد بلدیاتی انتخابات کروا دیتی تو پی ٹی آئی جیت جاتی لیکن تین سال بعد خطرہ مول لینا بہتر نہیں۔
فواد چودھری کی شروع سے ہی یہی پوزیشن ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انکی یہ پوزیشن ٹھیک ہے،2013 کے بعد سے پی ٹی آئی پارٹی کے مختلف دھڑوں کے درمیان اندرونی کشمکش پر قابو نہ پا سکی جس نے 2018 کے انتخابات میں نہ صرف پارٹی کو نقصان پہنچایا بلکہ پورے پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بھی وہ اکثریت سے ہار گئی۔
وزیراعلیٰ کے دعویدار علیم خان کا حالیہ استعفیٰ پارٹی کے اندر بڑھتے ہوئے تنازعے کا آغاز ہو سکتا ہے، یہ پنجاب کے معاملات میں پی ٹی آئی کی شکست ہے جو حکمران کیمپ میں تشویش کا باعث ہے۔
نتائج واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی اور سزا ، ان کی بیٹی مریم نواز کی نااہلی اور گرفتاری بھی ووٹر زکے ذہنوں کو تبدیل نہیں کرسکی۔ممکنہ مردم شماری اور اس کے بعد حلقوں کی حد بندی 2023 میں ہونے والے عام انتخابات میں ان دو مرکزی جماعتوں کے درمیان مقابلہ کو مزید دلچسپ بنا سکتی ہے۔